Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Thursday, May 9, 2013

نا امیدیاں؟


Wednesday 8 May 2013



۔ — اے ایف پی فائل فوٹو

پاکستان میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کی جانب تبدیلی ایک خوشگوار عمل ہے جس پر ہمیں مسرت کا اظہار کرنا چاہئے- پاکستان میں میرے حالیہ دورے کے دوران جب بھی مجھ پر پاکستان کے مستقبل کے تعلق سے ” قنوطیت پسندی ” کا الزام لگایا گیا- میں نے یہ الفاظ دہرائے جس نے اس الزام کو دھونے میں چھو منتر کا کام کیا-

چنانچہ ، اب جب کہ فی الحال ہم خوشی منارہے ہیں ، مجھے موقع دیجئے کہ میں اپنی قنوطیت پسندی کی وجہ بیان کروں – اس سال کے آغاز میں میں دو دستاویزی فلمیں بنانے کیلئے پاکستان آیا -

اپنی پہلی دستاویزی فلم کیلئے میں کوئیٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تحقیقات کرنا چاہتا تھا – دوسری دستاویزی فلم کیلئے میں پاکستان میں توہین شان رسالت کے قوانین کا جائزہ لے رہا تھا ، خاص طور پراس حوالےسے کہ یہ قانون پاکستان کی عیسائی اقلیت پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے -

یہاں پہنچنے کے فوراہی بعد میں نے یہ خبر سنی کہ لاہور کی جوزف کالونی کے تعلق سے توہین رسالت کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے – ایک عیسائی ساون مسیح اوراسکے ایک قریبی مسلمان دوست کے درمیان مئے نوشی کے بعد گرما گرمی اور جھگڑا ہوگیا – اورساون مسیح پرتوہین رسالت کا الزام لگایا گیا -

اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں کے اندرعیسائیوں کے سو سے زیادہ مکانوں اور دو گرجا گھروں کونذرآتش کردیا گیا – پولیس نے عیسائی گھرانوں کو وہاں سے بچ نکلنے میں مدد کی تاکہ لوٹ مار اور آتش زنی کرنے والوں کوکھلی چھوٹ مل جائے -

جوزف کالونی کا سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں ” اقلیتوں کے حقوق ” اور ” قانون کی بالادستی ” ایسے الفاظ ہیں جن کی کوئی خاص قانونی یا عملی حیثیت نہیں ہے -

یہاں سے چند سو میل دور کوئیٹہ میں میری ملاقات رخسانہ بی بی سے ہوئی جو چار بچوں کی ماں ہے ، رخسانہ ہزارہ شیعہ ہے – جب ہم اسکے آبائی مکان کے فرش پربیٹھے تھے تو اس نے مجھے دس جنوری کے واقعات سنائے -

اسی دن صبح میں علمدار روڈ پر واقع ایک اسنوکرہال گیا تھا جو اب ایک ڈھانچہ تھا – جنوری میں ایک خودکش بمباراس ہال میں گھس آیا تھا جہاں نوجوان ہزارہ جمع ہوتے ہیں اور اس نے خودکش حملہ کر دیا – پندرہ منٹ بعد جب رضاکاراور ریسکیو ٹیمیں وہاں مدد کیلئے پہنچیں تو ایک اور بم پھٹا – اس دن ایک سو بیس افراد لقمہء اجل بن گئے -

مدد کرنے والوں میں رخسانہ بی بی کے تین لڑکے بھی تھے ” جب میں نے یہ خبر سنی تو میں ننگے پیر وہاں دوڑی اور وہاں میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی لاشیں دیکھیں – میں نے ان کے چہرے چومے – میں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سے کہا . بیٹے تم قبر میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھنا ” – یہ کون لوگ ہیں جو سنیوں اور شیعوں کو لڑانا چاہتے ہیں ؟ -

لشکر جھنگوی ( ایل – جے ) کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کی شیعہ برادری کوبرسہابرس سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے – کوئیٹہ میں رہنے والے ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ اسنوکر ہال پربم حملے کے دس منٹ بعد اسے عسکریت پسندوں کے ایک رہنما کا فون آیا جس میں اس سے کہا گیا تھا کہ وہ لشکر جھنگوی کا بیان شائع کرے کہ وہ اس بمباری کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور یہ کہ شیعہ برادری کے خلاف ان کا یہ موقف جائز ہے -

اس سے زیادہ تشویشناک تو فوج ، پولیس اورکوئیٹہ کے پالیسی سازوں کے بیانات ہیں جنہوں نے یہ بتایا کہ ایل جے کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی – فوج کے ایک سینئرترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ” کوئیٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے – اس کا نصف علاقہ کنٹونمنٹ ہے – ہم اس حملے کو روک سکتے تھے لیکن انٹلیجنس سروس نے ہمارا ساتھ نہ دیا – یہاں کوئی بڑی سازش ہو رہی ہے “-

جب بھی میں کوئیٹہ میں بم دھماکوں کی وجوہات جاننا چاہتا ہوں تو مجھے تقریبا سبھوں سے یہی جواب ملتا ہے کہ اس میں ایرانی اور سعودی اثر اور امریکی ڈالرز کا ہاتھ ہے اور یہ جغرافیائی سیاسی ( جیوپولیٹیکل ) جنگ ہے -

ان ‘ بیرونی عناصر’ کی بنا پرنہ تو فوج اور نہ ہی پولیس کوئیٹہ کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے -

سازشی عناصر اور جھوٹے نظریات کا ملغوبہ پاکستانی سیاست میں اس حد تک در آیا ہے کہ کوئی بھی کبھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ —- حکومت پاکستان اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے میں مسلسل ناکام کیوں ہے ؟

جوزف کالونی میں مٹھی بھر لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن توہین رسالت کے قانون پر عوامی بحث کیوں نہیں ہوتی ؟ لشکر جھنگوی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ کاغذ پر تو یہ جماعت ممنوع ہے – لیکن اسکی ذیلی تنظیم سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت کے نام سے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کر رہی ہے -

اس پر کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا ؟ بہت سے پاکستانی تو سرحد کے اس پار اشارے کرنے میں بے حد مصروف ہیں – اور ناقابل فہم تاویلات کے ساتھ یہ تسلیم بھی نہیں کرنا چاہتے کہ حکومت اس معاملے میں سو رہی ہے – اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے – حکومت کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس کی جوابدہی کرے -

اسلام آباد میں پال بھٹی کے گھر میں ، جو باہمی ہم آہنگی کے سابقہ وزیر رہ چکے ہیں مجھے اس سوال کا ایماندارانہ جواب ملا کہ حکومت کیوں ناکام ہو رہی ہے -

” پاکستان کی تاریخ کا بڑا حصہ فوج کی حکمرانی کی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے – ہمیں کبھی اس بات کا نہ تووقت اور نہ ہی موقع دیا گیا کہ ہم پالیسی پرمناسب طور پر عمل درآمد کر سکیں “-

وہ غالباً ، انتخابات سے پہلے قائم ہونے والی نگران حکومت کی وجہ سے کھل کربات کر رہے تھے ، اس بات میں وزن نظر آتا ہے – ایک ایسے ملک میں جہاں فوج ثقافتی اور مالیاتی لحاظ سے طاقت کا سرچشمہ ہو، وہاں سیکورٹی میں کمی کا ذمہ دار کسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟-

حقیقت یہی ہے کہ ، پاکستان میں منتخب حکومت کوبمشکل ہی اس بات کا موقع ملاکہ وہ پاکستان میں کوئی مکمل پالیسی بنائے اور اس پر موثر طور پر عمل درآمد کرے – فوجی مداخلت کے نتیجے میں انتخاب کنندگان اس درجے بے بس ہو چکے ہیں کہ اب وہ مکمل طور پرمایوسی کا شکار ہیں – سیکورٹی نہیں ہوگی تو ترقی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی استحکام – کچھ بھی نہیں ہوسکتا -

چنانچہ ، مجھے وجہ سمجھ میں آتی ہے – جب میں رخسانہ بی بی سے یہ پوچھتا ہوں کہ وہ حکومت سے کیا توقعات رکھتی ہیں تواس کا جواب ہوتا ہے ، ” مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں – میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ یہ قتل وغارت گری ختم ہو “

پاکستان کے رائے دہندگان اورقیادت کے درمیان تعلقات کواس انتخابات کے نتیجے میں بہترہونا چاہئے – جیت اورہارکی قیاس آرائیوں اوردہشت گردی کے باوجود بھی ایک فتح تو حاصل ہو چکی ہے – پاکستانی عوام کو بالاخر ایک جمہوری تبدیلی کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے – قبیلہ واریت پر قابو پا کراور اپنے رہنماؤں کوجواب دہی کا ذمہ دار بنا کرپاکستان سے ناامیدی کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا -

پاکستان میں اقلیتوں پر جبرو تشدد کے مسئلہ کو 2013 کے انتخابی منشور کا حصہ نہیں بنایا گیا – اقلیتوں کے حقوق کے مسئلہ کوانتخابی منشور کا حصہ بنانے میں شائد ایک پشت گزر جائے لیکن جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے – صرف بیلٹ بکس کے ذریعہ ہی پاکستانیوں کو یقین آسکتا ہے کہ وہ اپنا مستقبل خود بنا سکتے ہیں اور وہ ایک ایسی قوم بن سکتے ہیں جو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے سکے -

ترجمہ: سیدہ صالحہ

Tuesday, May 7, 2013

Pakistan's under-fire Hazaras vow to make votes count

Agence France-PresseMay 7, 2013 01:15

In the city that has become the epicentre of sectarian bloodshed in Pakistan, Shiite Muslim candidates are braving death threats to make themselves heard in Saturday's election.

Shiites make up around a fifth of Pakistan's 180 million population but they are caught in a rising tide of sectarian hatred, targeted by extremist Sunni Muslim bombers and vilified on the campaign trail.

Quetta, capital of the southwestern province of Baluchistan, has been a focus for much of the violence and two devastating bombings earlier this year killed nearly 200 people from the city's ethnic Hazara Shiite population.

Banned Sunni extremist organisation Lashkar-e-Jhangvi (LeJ), which has links to Al-Qaeda, claimed the attacks and vowed to strike again.

The authorities stepped up security in some Hazara districts of Quetta but those running for office say the threats to their lives are so great that they are unable to move around freely to canvass for votes.

Ruquiya Hashmi, a doctor and a former soldier, faces a double challenge -- as well as being Hazara she is also the first woman to stand in Quetta for the national assembly.

For the past few days she has had threatening phone calls and letters sent to her offices. She is running for Pakistan Muslim League-Q, an ally of the outgoing government, but she is determined to stand up to the extremists.

"I'm lucky I'm a very brave woman. It's very challenging being a woman, being a Hazara, but God willing I will face the challenges and I will raise my voice," she said.... Continue Reading....

In Quetta, fear still stalks the Hazara

ANITA JOSHUA

The snooker club which was first targeted by terrorists in the January 10 attackon the Hazara Shias of Mariabad is being reconstructed, and the crater that formed on the road outside in the second — more devastating blast — the same day has been filled up. But memories of that afternoon will take much more to fade as the community lives in perpetual fear.

The January 10 attack and the one in mid-February on the other Hazara settlement in the provincial capital — where 90 people were killed in a single blast — have not only made fear a constant companion of the community but also affected their lives in ways they least expected.

The tightening of security in the two settlements has ghettoized the community even more. With no one allowed into the two areas without identification, shopkeepers complained that their businesses were suffering as now they catered for only the Hazara community since people from other neighbourhoods and ethnicities avoid shopping here because of the restrictions.

“The increased security has in a way spelt doom for our little businesses,” Sher Mohammad told a group of visiting foreign journalists. And with many a member of the community wary of stepping outside the localities for fear of being targeted by the Lashkar-e-Jhangvi (LeJ), limited liquidity is affecting spending power. Some months ago, the LeJ launched an SMS service in some places of the city, asking people to report to a certain mobile number as soon as they spot a Hazara who are easily recognizable because of their Mongoloid features.

Those working in government offices say their colleagues and seniors understand their predicament and allow them to skip work in case word gets around of a heightened threat on any given day. The provincial government, both Hazaras and non-Hazaras vouch, has been accommodating in this regard. That consideration, however, does not extend to those working in the private sector. With little option but to go out and work, they do so with their hearts in their mouth.

Since the two settlements are old with schools within the area, schooling has not been as much affected as higher education. Attendance of Hazara students tends to be erratic, though they have returned to their colleges; but their education under these circumstances is a concern for the community that attaches great importance to education of both boys and girls.

At the Balochistan University of Information Technology Engineering & Management Sciences (BUITEMS), Hazara students and teachers flagged the ironical situation created by a security arrangement. After a bomb attack on a bus ferrying students from the community killed three students and a teacher last year right outside the university’s main gate, the bus service to the two Hazara settlements was discontinued as a security arrangement.

Consequently, the students now have to wait for the university buses at designated points well outside their colonies, exposing themselves to the risk of being attacked in ones and twos that had become a fairly regular feature last year. Though such attacks have reduced since the two big bombings this year, fear has taken permanent residence in their lives.

According to Abdul Khaliq Hazara, chairman of the Hazara Democratic Party (HDP), many members of his community have fled the country. He puts the number at one lakh, but there is no data to substantiate this claim. “We want to leave, but that is not an easy option. Neither is moving to another city in Pakistan as Shias are targeted everywhere and we are easily recognizable,” explained Asadullah Hazara on Alamdar Road, which made it to international headlines when members of the community picketed the thoroughfare in sub-zero temperatures with the bodies of their dead in January.

In the case of the Hazara political leadership, the threat has also affected their election campaign. The HDP leader — who is contesting the general election from Quetta — rued that he was unable to campaign outside the Hazara areas because of the threat. Though Quetta has always been a multi-ethnic city with all communities living in harmony, the growing radicalisation of society has made Hazaras unsure of their Baloch and Pashtoon neighbours, particularly the former since the police claim that there is a linkage between the sectarian Lashkar-e-Jhangvi and some of the Baloch insurgent groups.

The community feels so traumatised now by living on the edge day in and day out that one resident of Mariabad — who did not want to be identified — said: “The situation is such that now even if the terrorists do not want to attack, we are stricken with fear.”

Almost all aspects of their day-to-day lives have been affected, but leaving is not an option for Quetta’s Hazara since Shias are targeted everywhere in Pakistan

Sunday, May 5, 2013


Pakistan's minority Hazaras living in fear

Last Updated: Sunday, May 05, 2013, 17:18

Quetta: When a suicide bomber detonated a vehicle rigged with 300-kg of explosives in a Hazara Shia neighbourhood in this southwestern Pakistani city in January, Sher Mohammed and his friends spent the next few hours collecting body parts.

"We found body parts on the roads, on the roofs of buildings. We collected three bags of body parts, each bag weighing 20-kg. About 12 people were simply blown to pieces," Mohammed said at Alamdar Road, which was targeted by two suicide bombers on that cold winter's night.

On January 10, one bomber entered a snooker club in the basement of a commercial building and blew himself up.

As policemen, rescue teams and local residents converged on the narrow street outside the club, another bomber detonated an explosives-laden ambulance about 10 minutes later.

The two bombings, claimed by the banned Lashkar-e-Jhanvi, killed 96 people and injured dozens more.

Most of the dead were Hazara Shias, including 10 policemen from the minority community that has been repeatedly targeted by the al-Qaeda-linked LeJ.

Deputy Inspector General of Police (Operations) Fayyaz Ahmed said the ambulance was packed with 300 kg of home-made explosives.

"The damage was on a scale we had not expected," he said. Nearly four months after the bombings, the building with the snooker club has been repaired and is about to reopen for business.

A crater in the street has been filled up, a screen has been put up to cover the damage caused by the second blast and few signs remain of the attacks.

But Sher Mohammed, 45, says he still feels uneasy when he remembers the devastation caused by the suicide bombers.

"There were bodies with no heads, no eyes, no limbs. Some had organs missing. Three men who were volunteers along with me for an ambulance service run by the Noor Welfare Society were killed. Everyone I know lost a relative or a friend," said Mohammed, who owns a butcher's shop.

All along Alamdar Road, there are posters with photographs of men who died in the January 10 bombings.

As a group of foreign journalists visited the neighbourhood this afternoon, a man came up to them and held up a board with the picture of a relative killed in the attack.

With authorities putting in place strict security arrangements for the Hazara Shias, who stand out due to their distinctive features, members of the community say business and normal life has been affected by threats from terrorists as well as the presence of security forces.



"We know the security personnel are here for our protection but they don't allow outsiders to enter the area. I have lost customers who were from other communities, like Punjabis and Pashtuns. We rarely go out of Mariabad, where most of us live," said Mohammed.


Asadullah, a 20-year-old Hazara youth who owns a small shop, said he would prefer to go away from Quetta to put behind him the constant threat of attacks. "If I had the money, I would leave. I would go anywhere," he said.

Zee News