Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, November 25, 2013

Targeted killing: Hazara man shot dead in Quetta

By Our Correspondent
Published: November 25, 2013


The body of the victim was shifted to the Bolan Medical Complex Teaching Hospital. PHOTO: REUTERS/FILE
QUETTA:

A man was shot dead in an attack apparently triggered by sectarian hatred on Kirani Road in Quetta on Sunday.

According to police officials, gunmen riding on a motorcycle opened fire on the victim, Arif Hussain, killing him on the spot. The gunmen fled the scene soon after the shooting.

The body of the victim, who belonged to the ethnic Hazara community, was shifted to the Bolan Medical Complex (BMC) Teaching Hospital.

Police registered a case against unidentified men and have launched an investigation into the incident.

In a separate incident, a man identified as Abdul Ghafoor was shot dead when gunmen opened fire at his shop in the Saryab Mill area on the edge of Quetta.

It wasn’t immediately known who killed Ghafoor and why.

There have been two major attacks against the Hazara community in Balochistan this year.

Published in The Express Tribune, November 25th, 2013.

Tuesday, November 19, 2013

سریاب روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ ایک شخص جاں بحق

کوئٹہ ( قدرت نیوز)سریاب روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ ایک شخص جاں بحق تفصیلات کے مطابق منگل کی شام سریاب روڈ سدا بہار ٹرمینل کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ایک شخص محمد قاسم ولد اختر محمد کو شدید زخمی کردیا زخمی کو فوری طور پر سول ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی

Friday, November 15, 2013

Afghanistan’s Band-e Amir National Park Hires First Female Park Rangers



Afghanistan’s first-ever women park rangers at Band-e Amir National Park. Photograph by Naseem Sultani/Wildlife Conservation Society.

Posted by Sonia Harmon of National Geographic on November 14, 2013

Did you know that women weren’t allowed to be park rangers in the United Statesuntil 1969? And it wasn’t until 1978 when women in the National Park Service were allowed to wear a service badge or the “male” uniform. Employment opportunities for women in America have come a long way since then, and now a national park in Afghanistan is taking steps to do the same. Band-e Amir National Park recently hired four women—Sediqa, Nikbakht, Fatima and Kubra, all of whom were formerly housewives—to become their first female park rangers. They joined a staff of 23 rangers at the park, which was established in 2009 and is known for its beautiful blue lakes and rare wildlife.... Continue Reading...

Wednesday, November 13, 2013

Message From Tahir Khan Hazara



Monday, November 4, 2013

Gunmen kill four Shias in Karachi

Dr. Sher Ali Shaheed, General Secretary of Hazara Mughal Yekjehti Forum is at a press conference : File Photo 

AFP

Published 2013-11-04 18:29:24

KARACHI: At least four Shia Muslims, including two doctors, were gunned down Monday and three others were injured in different parts of Karachi, police officials said.

A doctor was shot dead in Manghopir neighbourhood in the western district and another was gunned down around noon at Tariq Road in the eastern part of the city.

They were identified by police as Dr Sher Ali * and Dr Naseem Zaidi.

“The killing pattern shows that they were apparently carried out on sectarian grounds,” Javed Alam Odho, the deputy inspector general of police told AFP.

The other two victims were killed in central district when unknown attackers burst into a tailor's shop and opened fire.

The owner and a worker were killed and three others were injured.

“The attack seemed to be on sectarian lines as all of the people inside the shop were Shias,” senior police officer Aamir Farooqi said.

The latest attacks came ahead of the beginning of the Muslim holy month of Muharram, when Shias mourn the seventh century martyrdom of Hussain, the grandson of prophet Mohammad, along with his family members.

Shias make up around a fifth of Pakistan's predominantly Sunni Muslim population.

Police are already carrying out operations against criminal groups to curb sectarian and political killings. Security would be further tightened in the month of Muharram, they said.

“We are already carrying out the operation against sectarian and other elements and we would certainly intensify our efforts during the coming days,”Odho said.

Karachi, a city of 18 million people which contributes 42 per cent of Pakistan's GDP, is rife with murder and kidnappings and has been plagued for years by ethnic, sectarian and political violence


* Dr. Sher Ali : Dr, Sher Ali was secretary general of Hazara Mughal Yekjehti Forum, an organisation representing Hazara diaspora in Karachi. Only few months ago, son of the president of this forum also became victim of the ongoing onslaught of Shias in the city. Dr. Sher was the second general secretary of this organisation shot dead by the militant outfits after Qurban Ali Ajiz.

کوئٹہ کے مدرسے میں پراسرار دھماکہ، دو زخمی

 Sunday 3 November 2013
کوئٹہ میں ایک مکان سے برآمد ہونے والے اسلحے اور دیگر سامان کی تصویر۔ فائل تصویر رائٹرز
 سید علی شاہ 0

 کوئٹہ میں ایک مکان سے برآمد ہونے والے اسلحے اور دیگر سامان کی تصویر۔ فائل تصویر رائٹرزکوئٹہ میں ایک مکان سے برآمد ہونے والے اسلحے اور دیگر سامان کی تصویر۔ فائل تصویر رائٹرز کوئٹہ: کوئٹہ میں ایک مدرسے میں ہونے والے پراسرار دھماکے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق دھماکے سے ایسٹرن بائی پاس پر واقع اس مدرسے کچی مٹی پر مشتمل پانچ کمرے بھی تباہ ہوگئے ہیں۔ سریاب میں سپریٹینڈنٹ پولیس بشیر احمد براہوی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ یہ مدرسہ شہر میں تخریبی کارروائیوں کیلئے شرپسندوں کے استعمال میں تھا۔ ‘ افغان وہاں دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں مصروف تھے،’ براہوی نے کسی افغان طالبان یا اس کے دھڑے کا نام لئے بغیر کہا۔ اس دھماکے کی گونج وادی میں دور دور تک سنائی دی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق یہ دھماکہ کم از کم بیس کلوگرام وزنی دھماکہ خیز مواد کی وجہ سے ہوا تھا۔ ‘ دھماکے کی جگہ خون آلود تھی،’ براہوی نے بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ دو زخمی افراد نے کسی بھی ہسپتال سے رابطہ نہیں کیا بلکہ دونوں دھماکے کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔ بشیر احمد براہوی نے بتایا کہ پولیس نے جائے وقوعہ سے بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد، بارود، تیزاب اور ڈیٹونیٹر کے علاوہ غیرملکی زبان میں لٹریچر برآمد کیا ہے۔ ‘ مدرسہ پر کوئی سائن بورڈ نہیں لگا تھا اور وہ رجسٹر بھی نہ تھا۔ ‘ ایک اور پولیس افسر نے معاملے کی حساس نوعیت پر نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ دھماکے سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ‘ دہشتگرد پولیس کے آنے سے قبل ہی لاشوں کو لے کر کہیں منتقل ہوگئے تھے،’ اس نے کہا۔ ‘ آپ خون اور تباہی ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں،’ اس نے کہا۔ واقعے کے بعد خفیہ اداروں کےاہلکار اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر تفتیش شروع کردی ہے۔ کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں لیکن اب تک کسی بھی گروہ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ ایک اور الگ واقعے میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے کوئٹہ کے ہزارہ ٹاون میں ایک مکان پر دیسی ساختہ دستی بم پھینکا جس سے مکان کے شیشے ٹوٹ گئے اور اسے جزوی نقصان پہنچا۔ اس واقعے میں 
کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

تحفظ نہیں


Monday 4 November 2013


فائل تصویر رائٹرز

عسکریت پسندی نے پاگل پن کی ہر صورت میں، ملک کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، جس میں لوگوں کے مختلف طبقات پر ردِ عمل، اپنی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے لیے شیعہ ہزارہ واضح ہدف ہیں لیکن جو کوئی ان کی واضح شناخت پر سوچتاہے، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہی زور دے گا کہ ہزارہ برادری کو اضافی طور پر تحفظ فراہم کیا جائے لیکن یہ بار بار غلط ثابت ہوا ہے۔

رواں سال بلوچستان میں ہزارہ برادری پر حملوں کے سلسلے میں ڈھائی سو سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ان حملوں کو صرف بعض گروہوں سے جوڑا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ عسکریت پسند خود فخریہ طور پر ذمہ داری لینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ہزارہ برادری پر تازہ ترین حملہ جمعہ کو بلوچستان کے ضلع مچھ میں ہوا، جس میں چھ ہزارہ کان کُن اپنی جانوں سے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی۔ اطلاعات کے مطابق تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اُن کے خلاف ہونے والے سیکیورٹی آپریشن کا ردِ عمل ہے۔

جو بلوچستان کی صورتِ حال کو زیادہ نہیں جانتے،اس سے وہ یہ تاثر قائم کرسکتے ہیں کہ واقعی حکومت صوبے میں عسکریت پسندی کا صفایا کررہی ہے لیکن جو صوبے میں کچھ عرصے سے جاری تشدد پر نظریں رکھے بیٹھے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صوبائی حکومت اور بلوچستان میں کام کرنے والی سیکیورٹی ایجنسیز کی کارروائیوں میں ٹھوس اقدامات کا فقدان ہے۔

یہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر ٹھوس اقدامات اٹھانے میں ناکام ہوچکے، ریاست اور حکومت کی اس ناکامی کی بھاری قیمت ہزارہ برادری اپنی جانیں دے کر چکا رہی ہے۔

جمعے کو ہونے والے ظالمانہ حملے کے بعد، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ایک بار پھر معمول کے اپنے بیان کے ساتھ سامنے آئے، جس میں انہوں نے واقعے کی مذمت کی اور ‘انتظامیہ’ کو ہدایت دی کہ قاتلوں کی گرفتای کے لیے ہرممکن اقدامات کرے۔

وزیرِ اعلیٰ نے محرم، جس کا اگلے ایک دو روزمیں آغاز ہونے والا ہے، کے دوران ہزارہ برادری کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہترین صلاحیتیں پیش کرنے کا یہ سب سے بہترین وقت ہے۔

لیکن صرف فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کا وعدہ ہی کافی نہیں۔ لوگوں کی جانوں کے تحفظ کے واسطے، محرم اور اس کے بعد بھی، غیرمعمولی سیکیورٹی نظر آنی چاہیے۔