Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, August 13, 2012

بامیان بدھ: کیا انہیں دوبارہ بنایا جائے



سنہ دو ہزار ایک میں افغانستان میں بامیان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی کے بعد دنیا بھر میں طالبان حکومت کی مذمت کی گئی تھی۔

لیکن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے ان مجسموں کو تعمیر نہ کرنے کے فیصلے نے ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے۔

طالبان کے رہنما ملا عمر نے اپنے دورِ اقتدار میں بتوں کے خلاف جنگ شروع کر رکھی تھی۔جسامت اور علامتی دونوں اعتبار سے ان کا سب سے بڑا نشانہ بامیان کے بدھا مجسمے تھے، جو ایک زمانے میں دنیا کے سب سے بڑے مجسمے تھے۔

ان میں سے ایک کی اونچائی پچپن میٹر تھی۔ انہیں وسطی افغانستان میں چھٹی صدی کے دوران ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔

جب دو ہزار تین میں طالبان کو معزول کر دیا گیا تو یونیسکو نے اس وادی کو عالمی ورثہ قرار دے دیا جس کے بعد دنیا بھر سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یہاں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔یہاں پہنچ کر انہیں صرف دو دیو ہیکل خالی غار ملے جو شکستہ مجسموں کے ٹکڑوں اور ان بارودی سرنگوں سے بھرے پڑے ہیں جو پھٹ نہیں سکی تھیں۔

اس وقت سے ماہرین ان ٹکڑوں کا جائزہ لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا انہیں پھر سے تعمیر کیا جائے یا نہیں۔

بامیان وادی بدھ مت کے مغربی پھیلاؤ کی آخری حد اور یہ گذشتہ پانچ سو برس میں اہم تجارتی مرکز رہ چکی ہے۔ یہ وادی مشرق و مغرب کے سنگم پر واقع تھی اسی لیے یہاں پائے جانے والے منفرد آثار میں یونانی، ترکی، ایرانی، چینی اور ہندوستانی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

گذشتہ برس یونیسکو نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بڑے مجسمے کو تعمیر کرنے کے لیے کافی ٹکڑے دستیاب نہیں، جب کہ چھوٹے مجسمےکی تعمیر ممکن ہے، لیکن یونیسکو کے مطابق ایسا ہونے کا امکان کم ہے۔

اس کے بجائے وہ جاپان اور اٹلی کی ٹیموں کے ساتھ مل کر چٹانوں کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ غاروں کی دیواروں پر بنی بقیہ تصاویر کو محفوظ رکھا جا سکے۔

اس علاقے کے لوگ افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں

تاہم آثارِقدیمہ کے تحفظ کی ایک جرمن تنظیم، انٹرنیشنل کونسل آن مانیومنٹس اینڈ سائٹس اب بھی کوشش کر رہی ہے کہ ان بدھا مجسموں کو ازسرِنو تعمیر کیا جائے۔

برٹ پریکسین تھالر اس تنظیم کے ساتھ دو ہزار چار سے وابستہ ہیں اور مجسمے کے بچے کھچے حصے محفوظ کرنے کی لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے بعض ٹکڑوں کا وزن چالیس ٹن کے قریب ہے۔

وہ ایک ایسے عمل میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے تحت کم سے کم نیا مواد استعمال کر کے ان ٹکڑوں کو جوڑا جا سکے۔ اس عمل کو ایناسٹائیلوسس کہا جاتا ہے۔

پریکسن تھالر کہتے ہیں ’یہ ایک ایسے معمے کو جوڑنے کے مترادف ہے جس کے کئی ٹکڑے غائب ہوں، تاہم جغرافیائی طریقے استعمال کر کے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ ٹکڑے پہلے کہاں تھے۔‘

یہ طریقہ ایتھنز میں پارتھینون اور ایکروپولس میں کامیابی سے برتا جا چکا ہے۔

ایک اور مسئلہ لاگت کا بھی ہے۔ صرف چھوٹے بدھ کو تعمیر کرنے پر لاکھوں ڈالر صرف ہوں گے، اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جہاں بنیادی انفراسٹرکچر مثلاً سڑکوں اور بجلی کا فقدان ہے۔ مزید برآں، اس مقصد کے لیے بڑی مقدار میں دھات درآمد کرنا پڑے گی جسے کابل سے پرخطر راستوں کے ذریعے لانا پڑے گا۔

’بامیان کے بدھا‘ نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر لیولن مورگن کہتے ہیں’افغانستان میں روزانہ حیران کن حد تک بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔ ان کے مقابلے پر یہ رقم سمندر میں قطرے کے مترادف ہو گی۔‘

بامیان بدھ



"بامیان پر آثارِقدیمہ کے تمام وسائل صرف کر دیے جاتے ہیں لیکن افغانستان میں حیرت انگیز آثار بکھرے پڑے ہیں۔"


لیولن مورگن

البتہ ڈاکٹر مورگن یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں اور بھی آثارِقدیمہ ہیں جن کے تحفظ کی ضرورت ہے۔

’بامیان پر آثارِقدیمہ کے تمام وسائل صرف کر دیے جاتے ہیں لیکن افغانستان میں حیرت انگیز آثار بکھرے پڑے ہیں۔‘

اس علاقے میں رہنے والے لوگ اب بھی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ملک بھر میں آثارِ قدیمہ کی لوٹ مار بہت بڑا مسئلہ ہے، جنہیں پاکستان کی آرٹ مارکیٹ میں سمگل کر دیا جاتا ہے۔ مورگن کا خیال ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وسائل کو افغانستان کے قدیم نوادر کو بچانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بروئے کار لایا جائے۔

امریکی اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک آرٹیکل میں انہوں نے مغربی بامیان میں واقع قرون وسطیٰ کے زمانے کے ایک قلعے چہل برج کا ذکر کیا تھا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔

بامیان پر توجہ مرکوز ہونے سے یہاں کے لوگوں کے بارے میں آگاہی ہوئی ہے

وہ کہتے ہیں، ’کچھ وقت اورگزرنے دیں، پھر دیکھیں کہ غیرقانونی لوٹ مار، زلزلوں، اور موسمیاتی عوامل کے باعث بڑے سے بڑے سرگرم بت شکن کے ہاتھوں پھیلائی گئی تباہی سے کہیں زیادہ تباہی پھیلے گی۔‘

یونیسکو بھی انہی خطوط پر سوچتے ہوئے بامیان میں ایک عجائب گھر برائے امن بنا رہی ہے تاکہ افغانستان کے ثقافتی ورثے کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا جا سکے۔

وجہ جو بھی ہو، بامیان کے بدھوں نے عالمی توجہ حاصل کر رکھی ہے، اور ان کی تعمیر کے بارے میں دنیا بھر کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ، ماہرینِ تعمیرات، فن کاروں اور تاریخ دانوں کی طرف سے طرح طرح کے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مقامی آبادی اور افغانیوں کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال رکھنا اور انہیں اعتماد 
میں لینا بھی ضروری ہے۔

Sunday, August 12, 2012

Bamiyan Buddhas: Should they be rebuilt?


BBC World Service


The destruction of Afghanistan's Bamiyan Buddhas in 2001 led to global condemnation of the Taleban regime. But the decision by Unesco not to rebuild them has not put an end to the debate about their future.

When the Taliban were at the height of their power in Afghanistan, leader Mullah Omar waged a war against idolatry.

His biggest victims, in size as well as symbolism, were two standing stone Buddhist statues. Once the largest in the world - one measured 55 metres in height - they were carved into the sandstone cliff face of the Bamiyan valley in central Afghanistan during the 6th Century.

When the Taliban were overthrown in 2003, Unesco declared the valley a world heritage site and archaeologists flocked to it. What they found were two enormous empty caverns and a pile of debris littered with unexploded mines.
One of the Buddhas was 55 metres high

Since then, they have been surveying the rubble of the two stone structures to determine whether the Buddhas should be rebuilt.

The Bamiyan valley marked the most westerly point of Buddhist expansion and was a crucial hub of trade for much of the last millennium. It was a place where East met West and its archaeology reveals a blend of Greek, Turkish, Persian, Chinese and Indian influence that is found nowhere else in the world.

But last year, Unesco announced that it was no longer considering reconstruction. In the case of the bigger Buddha, it was decided there wasn't enough left to rebuild and though rebuilding the smaller one is possible, they said it is unlikely to happen.

Instead they are working with teams from Japan and Italy to secure the cracking cliff face and keep the cliffs and any of the remaining wall paintings that once covered the caves and niches intact.

But a German group of archaeological conservationists, the International Council on Monuments and Sites (Icomos), are still pushing for the Buddha to be rebuilt.......Continue Reading......


Should We Rebuild the Buddhas of Bamiyan?


Llewelyn Morgan
Lecturer in Classics at Brasenose College, Oxford

Posted: 04/06/2012 00:00

When you've spent 18 months writing a book calledThe Buddhas of Bamiyan, and - let's be honest - when you'd quite like to flog a copy or two, all the recent talk about reconstructing one of the colossal statues demolished by the Taliban can seem heaven-sent. Those 18 months were spent discovering that places don't come any more historically significant than Bamiyan.

In AD 629 the Buddhas were visited by Xuanzang, the great Chinese traveller sometimes described as the Marco Polo of the East: he left a precious account of their original, brightly-coloured decoration. Later they were celebrated wonders of the Islamic world, monuments of which it was said that there were "no equals in this world."

At the end of the 18th century an eccentric but influential British author proposed that Bamiyan was the Garden of Eden: a string of dropouts, spies, and Christian missionaries visited Bamiyan from British India in his wake, and though all of them found a place of breathtaking natural beauty, the earthly paradise proved more elusive. Even the destruction of the Buddhas in 2001 was connected in murky ways to the greatest historical turning-point of recent times, in New York later the same year.

So yes, by all means let's investigate the feasibility of reconstructing the smaller (38 m.) Buddha - what remains of the bigger (55 m.) statue is just too fragmentary for it to be an option there. If it can be done well, if the daunting technical obstacles can be overcome, and if the cost (which will be exorbitant) can be justified by the benefits it will bring to a renascent tourist industry, who could possibly object? It's certainly what the local population want, and leaving empty the niche of the larger Buddha would even satisfy the purists who see the space where the Buddhas once were as a powerful memorial in itself. In all sorts of ways, a profoundly apt gesture....Continue Reading........

Archaeologists cover up Afghan heritage

By Joris Fioriti (AFP) 

BAMIYAN, Afghanistan — "It's there," says an archaeologist pointing to the ground, where fragments of a Buddha statue from the ancient Gandhara civilisation have been covered up to stop them being stolen or vandalised.

Just months before the US-led invasion in 2001, the Taliban regime shocked the world by destroying two giant, 1,500-year-old Buddhas in the rocky Bamiyan valley, branding them un-Islamic.

More than 10 years on Western experts say Afghanistan's ancient Buddhist and early Islamic heritage is little safer.

At the foot of the cliff where the two Buddhas used to stand 130 kilometres (80 miles) west of Kabul, an archaeological site has been found and parts of a third Buddha, lying down, were discovered in 2008.

The area of the lying Buddha is around half the size of a football pitch. A dozen statues or more lie under tonnes of stone and earth.

"We covered everything up because the ground is private and to prevent looting," says Zemaryalai Tarzi, the 75-year-old French archaeologist born in Afghanistan who is leading the project.

Tarzi says he dug first in the potato fields to find artefacts, which he buried again afterwards. All around him, under a large area of farmland, he says, lie exceptional treasures....Continue Reading........

'برنامه ترور محمدکریم خلیلی، معاون کرزی خنثی شد'


به روز شده: 06:34 گرينويچ - 12 اوت 2012 - 22 مرداد 1391



این دومین بار است که برنامه حمله به آقای خلیلی در سال جاری خورشیدی خنثی می‌شود

اداره امنیت ملی افغانستان اعلام کرده است که پنج تن را به اتهام تلاش برای ترور محمدکریم خلیلی، معاون رئیس‌جمهور این کشور دستگیر کرده است.

این اداره روز یکشنبه، ۲۲ اسد/مرداد، در اطلاعیه‌ای نوشت که این افراد در پی عملیات ویژه سه‌ساعته در ناحیه (منطقه) اول شهر کابل بازداشت شده‌اند.

اداره امنیت ملی گفته است که این پنج مرد که یکی از آنها پاکستانی است، چندین واسکت(جلیقه) انتحاری، مسلسل، راکت آرپی‌جی ۷، بمب دستی و صدها گلوله با خود داشتند.

منابع امنیت ملی گفته‌اند که این مهاجمان قصد داشتند با استفاده از یونیفورم ارتش ملی افغانستان به محمدکریم خلیلی، معاون دوم رئیس‌جمهور افغانستان در خانه‌اش حمله کنند.

به گفته این منابع، حمله به مقر پارلمان افغانستان از دیگر اهداف این گروه پنج نفره بوده است.

این دومین برنامه حمله انتحاری به محمدکریم خلیلی در سال جاری خورشیدی است که از سوی اداره امنیت ملی افغانستان خنثی می‌شود.

پیش از این روز دوم ماه ثور/اردیبهشت، اداره امنیت ملی افغانستان اعلام کرد که سه مرد که تصور می‌شد اعضای شبکه حقانی باشند، به اتهام تلاش برایکلیکحمله انتحاری به آقای خلیلی در خانه‌اش دستگیر شده‌اند.

اداره امنیت ملی در آن زمان تصاویری ویدئویی را در اختیار رسانه‌ها قرار داد که نشان می‌داد این سه مرد در حال برنامه‌ریزی و نقشه‌کشی برای حمله به خانه آقای خلیلی هستند.

خنثی‌سازی دومین برنامه حمله به آقای خلیلی نشان می‌دهد که شورشیان او را از اهداف عمده‌ای می‌دانند که از آن دست‌بردار نیستند.

محمدکریم خلیلی از رهبران ائتلاف سابق شمال افغانستان است که در سال‌های ۱۳۷۵ تا ۱۳۸۰ علیه حاکمیت گروه طالبان می‌جنگید.

پیش از این لطف‌الله مشعل، سخنگوی اداره امنیت ملی در کلیکمصاحبه‌ای با بی‌بی‌سیگفته بود که طالبان، رهبران ائتلاف شمال را 
.از "بدترین دشمنان" خود می‌دانند.

Friday, August 10, 2012

همسایه های 'همدل' مدال های تکواندو را درو کردند


ستار سعیدی

بی بی سی فارسی


به روز شده: 02:11 گرينويچ - جمعه 10 اوت 2012 - 20 مرداد 1391


رقابت نزدیک و تناتنگ نیکپا و باقری ۴ بر ۴ مساوی شد و امتیاز وقت اضافه را، باقری از آن خود کرد و به مرحله نیمه نهایی راه یافت

اگر بپذیریم که هدف المپیک، نزدیک کردن ملت هاست، نمونه روشن این نزدیکی را، پنجشنبه شب و در جریان تکاپوی روح الله نیکپا از افغانستان و محمد باقری از ایران، برای رسیدن به فینال مسابقات تکواندو، می شد به خوبی در میان افغان ها و ایرانی ها مشاهده کرد؛ دست کم در حلقه کسانی که من، از نزدیک یا از طریق شبکه های اجتماعی با آنها در تماس بودم.

یک دوست تاجیک در فیسبوکش نوشته بود امشب محمد باقری از ایران و روح الله نیکپا از افغانستان مسابقه دارند، هر کدام ببرند، ما شادی می کنیم؛ و همین‌گونه هم شد.


وقتی روح الله نیکپا، نماینده افغانستان در وزن ۶۸ کیلوگرم تکواندو، در نخستین مسابقه اش، قاطعانه و با نتیجه ۱۲ بر ۵، حریف لهستانی را پشت سر گذاشت، پا به پای افغان ها، ایرانی هم شادی کردند و حتی بعضی ها نگران بودند که در صورت صعود ایران در مسابقه بعدی مقابل جمهوری آفریقای مرکزی، نیکپا و باقری رو در روی هم قرار گیرند و چه سخت است انتخاب بین دو محبوب.
'هر کدام ببرند، ما خوشحالیم'

باز همان جمله دوست تاجیک دست به دست و زبان به زبان می گشت که چه باقری، چه نیکپا، هر کدام ببرند، ما برنده ایم.

محمد باقری از ایران، حریفش، دیوید بوئی از آفریقای مرکزی را شکست داد و ساعتی بعد، مقابل روح الله نیکپا قرار گرفت. حالا دیگر حرف فقط این نبود که "هرکدام ببرند ما خوشحالیم"؛ شاید باورش برای خیلی ها سخت باشد، اما کم نبودند ایرانی هایی که می گفتند ما دوست داریم روح الله نیکپا ببرد، تا همزبانان افغان ما هم به نخستین مدال این المپیک دست یابند.

رقابت نزدیک و تناتنگ نیکپا و باقری ۴ بر ۴ مساوی شد و امتیاز وقت اضافه را، باقری از آن خود کرد و به مرحله نیمه نهایی راه یافت. به بیان دیگر، رقابت شانه به شانه دو همسایه و همزبان را، محمد باقری از روح الله نیکپا برد؛ اما باقری با یک پیروزی شیرین دیگر در مقابل دیگو سیلوای برزیلی، خودش به فینال رفت و یک شانس دیگر برای کسب مدال برنز، پیش پای نیکپا گذاشت؛ شانسی که روح الله به خوبی از آن استفاده کرد و با دو پیروزی (۱۴ بر ۲ مقابل دیوید بوئی و ۵ بر ۳ مقابل مارتین استمپر بریتانیایی)، یک مدال برنز برای کشورش به دست آورد.
سه همسایه، سه مدال

مدال برنز نیکپا، اشک شوق را در چشمان افغان ها جاری کرد و لبخند رضایت بر لبان ایرانی ها نشاند. در پایان، مدال طلای این وزن از مسابقات تکواندو، به سروت تازگل از ترکیه رسید که ۶ بر ۴، باقری از ایران را شکست داده بود. رفتار دوستانه و همدلانه سروت که در پایان مسابقه، دست باقری را هم به نشانه پیروزی بالا برد، باعث شد ایرانی ها، مقاوم دومی این مسابقات را با پیشانی بازتر بپذیرند؛ هرچند خود باقری، در هنگام دریافت مدال، زیاد خوشحال به نظر نمی رسید.

مسابقات تکواندو، دو مدال برنز دارد که یکی نصیب روح الله نیکپا شد و دیگری، به ورزشکاری از آمریکا رسید؛ ترکیب و ترتیب مدالها را، یک کاربر ایرانی فیسبوک، با بیانی طنز، اینگونه تعبیر کرده است: "امشب هم شب خوبی بود، مدالها رو خودمون و همسایه‌هامون (ترکیه و افغانستان) درو کردیم، آمریکا هم که خوب نخود آش کرد خودش رو."
BBC Farsi