Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, July 1, 2013

ہزارہ ہلاکتیں: محض مذمتی بیانات کافی نہیں

شہزاد ملک

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

آخری وقت اشاعت: پير 1 جولائ 2013 ,‭ 16:24 GMT 21:24 PST


’ہزارہ برادری کے خلاف حملے، جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘

مختلف سیاسی جماعتوں نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنانے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ محض مذمتی بیانات دینے سے معاملات حل نہیں ہوں گے بلکہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کی زیادہ تر ذمہ داری وفاقی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔

ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما صابر علی بلوچ نے بی بی سی سے بات چیت میں موجودہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ملک میں امن وامان کی بحالی اُن کی اولین ترجیحات میں سے ہے لیکن اس جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں کمی آنے کی بجائے اُس میں اضافہ ہوا ہے۔

صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومِت وقت کو فوج ، متاثرہ ہزارہ برادری اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ صوبے کی سیاست سے فوج کے کردار کو کسی طور پر بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔

اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ اس تنظیم کے ٹھکانے صوبہ پنجاب میں ہیں اور وفاق اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے تو پھر وہ اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت وقت کو برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ بھی بات کرنی چاہیے کہ اُنہوں نے پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث بلوچوں کو کیوں اپنے ملکوں میں پناہ دی ہوئی ہے۔

شریں مزاری نے الزام عائد کیا کہ یہ ممالک بلوچ بھگوڑوں کو مالی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں سابق حکمراں اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی اس صوبے میں اتنی عمل دراری نہیں ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ صوبے میں حکومتیں دکھانے کی ہیں اور اس صوبے میں فوج اور اُس کے خفیہ ادارے سب سے زیادہ بااختیار ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ حساس ادارے منتخب حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیں۔

حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی جماعت کو یہ تمام مسائل ورثے میں ملے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بلوچستان میں امن وامان کی بحالی کے لیے پُرعز م ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ اُن کی حکومت شورش زدہ علاقوں میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔ مشاہداللہ خان کا کہناتھا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومتی ادارے جلد بیٹھ کر اس بارے میں حکمت علی تیار کرلیں گی۔

یاد رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئٹہ شہر جہاں پر سب سے زیادہ سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار تعینات ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں پر شدت پسندی کے واقعات ہونا بظاہر سیکورٹی اور خفیہ اداروں میں تعاون کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔

No comments:

Post a Comment