Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, June 30, 2014

Pakistan: Rampant Killings of Shia by Extremists

’لشکرِ جھنگوی کے خلاف کارروائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘


آخری وقت اشاعت: پير 30 جون 2014 ,‭ 04:14 GMT 09:14 PST


سنہ 2013 میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا:ہیومن رائٹس واچ

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں باالخصوص ہزارہ برادری کے قتل پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے یہ بات 62 صفحوں پر مشتمل اپنی رپورٹ ’ہم زندہ لاشیں ہیں: پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ہلاکتیں‘ میں کہی ہے۔


ہیومن رائٹس کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے ’حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہزارہ اور دوسری شیعہ برادری کے قتلِ عام پر بے عملی نہ صرف اپنے ہی شہریوں سے بے حسی اور بے وفائی ہے بلکہ اس کا مطلب جرائم کو جاری رہنے میں حصہ دار بننا ہے۔‘

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ اموات کے حوالے سے سب سے زیادہ خونریزی جنوری اور فروری سنہ 2013 میں ہوئی جب شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اموات محض دو حملوں میں ہوئیں۔ ایک سنوکر کلب واقعہ تھا اور دوسرا سبزی منڈی حملہ۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی۔

ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام عسکری گروہ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں 
ملوث ہیں باالخصوص لشکر جھنگوی کا احتساب کیا جائے اور ان کو غیر مسلح اور منتشر کیا جائے۔

Pakistan: Rampant Killings of Shia by Extremists

Disarm, Prosecute Militants, Protect Hazara Community
JUNE 30, 2014


Enlarge

A man prepares graves for the victims of the February 17, 2013 vegetable market bomb attack in a Shia Hazara area of Quetta city in Pakistan.
©2013 Reuters
OUR REPORT:


"We are the Walking Dead"
Killings of Shia Hazara in Balochistan, Pakistan
JUNE 29, 2014
GET THE REPORT:
Download the full report
GO TO REPORT HOME »
DOWNLOADABLE RESOURCES: 

“Sunni extremists have targeted Hazara with guns and bombs while they participate in religious processions, pray in mosques, travel to work, or just go about daily life. There is no travel route, no shopping trip, no school run, no work commute that is safe for the Hazara. The government’s failure to put an end to these attacks is as shocking as it is unacceptable.”
Brad Adams, Asia director

(London) – Pakistan’s government should take all necessary measures to stop Sunni extremist groups in Balochistan province from committing further killings and other abuses against Hazara and other Shia Muslims, Human Rights Watch said in a report released today.

The 62-page report, “‘We are the Walking Dead’: Killings of Shia Hazaras in Balochistan, Pakistan,”documents Sunni militant group attacks on the mostly Shia Hazara community in Balochistan. Since 2008, several hundreds of Hazara have been killed in steadily worsening targeted violence, including two bombings in the provincial capital, Quetta, in January and February 2013 that killed at least 180 people.

“Sunni extremists have targeted Hazara with guns and bombs while they participate in religious processions, pray in mosques, travel to work, or just go about daily life,” said Brad Adams, Asia director. “There is no travel route, no shopping trip, no school run, no work commute that is safe for the Hazara. The government’s failure to put an end to these attacks is as shocking as it is unacceptable.”.... Continue Reading ....

Wednesday, June 11, 2014

Yes, I am Hazara


Samaa TV Report on Taftan Attack

Monday, June 9, 2014

Pictorial Report: Victims of Taftan Terrorist Attacks












                                                      Pictures by Amir Musa Hazara 

Daily Qudrat 

بلوچستان میں شیعہ زائرین کی ہلاکتیں: تین روز کا سوگ


پاک ایران سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیرشی زائرین پراتوار کی شب ہونے والے خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 32 ہو گئی ہے۔


30 سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں بیشتر کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ خودکش حملوں میں جان بحق ہونے والے اکثر افراد کا تعلق خیبر پختونخوا ء سے بتایا گیا ہے پاکستان کی شعیہ تنظیموں نے ملک بھر اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری طرف ان دہشت گرد حملوں میں ملوث کالعدم جیشں الاسلام نامی شدت پسند تنظیم کے روپوش کا رکنوں کی گرفتاری کے لئے تفتان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جس میں فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔

ان خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کی لاشوں اور 22 زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ضروری کارروائی کے بعد مقامی افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ہیں جبکہ دیگر افراد کی لاشیں ان کے عزیز و اقارب کے ہمراہ خیبر پخونحواء کے علاقے کوہاٹ، پارہ چنار اور دیگر علاقوں میں بھیج دی گئیں ہیں قبل ازیں دیگر 240 شیعہ زائرین کو حملوں کے بعد رات گئے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے بعد میں آج صبح انہیں تفتان اور دالبندین سے سخت حفاظتی انتطامات میں ان کے گھروں کے لئے روانہ کیا گیا اس سے قبل سانحے کے سات شدید زخمیوں کو طبی امداد کے لئےایران بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ڈی ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیر شیعہ زائرین پر یکے بعد دیگر چار خودکش حملہ اورں نے حملے کئے جس سے زیادہ نقصان ہوا ان کا مزید کہنا تھا۔

،، تفتان میں پہلے ہوٹل میں جب خودکش حملہ اور داخل ہوا تو سکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کر کےاسے ہلاک کیا جبکہ دوسرے حملہ اور نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس سے کم نقصان ہوا تاہم کچھ ہی دیر میں دوسرے ہوٹل میں بھی دو خودکش حملہ اوروں نے داخل ہو کر حملہ کیا جس کی وجہ سے زیادہ زائرین شہید ہوئے۔،،

ان حملوں کے سوگ میں تحفظ عزہ داری کونسل اور دیگر شیعہ تنظیموں کی اپیل پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تفتان میں شیعہ زائرین پراگرچہ یہ پہلا حملہ تھا تاہم شیعہ رہنماوں نے اسےانتظامیہ کی غفلت سے تعبیر کیاہے شیعہ علماء کونسل کے سینیئر رہنماء علامہ زاہد حسین کے بقول حکومت انتہا پسند گروپوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لئے یہ واقعات بڑھتے جا رہے ۔

،، بے حسی کی انتہا ہے مسلسل زائرین کے ساتھ یہ واقعات پیش آرہے ہیں حکومت کو معلوم بھی ہے کہ تفتان بہت حساس علاقہ ہے اس کے باوجود زائرین کی حفاظت کے لئے کوئی موثر سکیورٹی انتطامات نہیں کئے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر زائرین کے تحفظ کے لئے انتظامات کئے جائیں اور جو دہشت گرد ان واقعات میں ملوث ہیں انہیں گرفتار کیا جائے۔ ،،

ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پرہونے والے حملوں کے خلاف کوئٹہ سمیت ملک کے بیشتر دیگر حصوں میں پیر کوشیعہ تنظیموں کی اپیل پر احتجاج بھی کیا گیا اورمختلف علاقوں میں مظاہرین نے بڑھتی ہوئی بد امنی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کے بقول شیعہ زائرین پر بڑھتے ہوئے حملوں کی اہم وجہ حکومت کی بے حسی ہے کیونکہ وہ شدت پسندوں کے خلاف سنجیدگی سے کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ ،، گزشتہ کئی سالوں سے ہماری نسل کشی جاری ہے اور دہشت گرد ہمیں ماررہے ہیں لیکن حکومت کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہی ہے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کی غیر سنجیدگی نہیں تو اور کیا ہے ہمارا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان گروپوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ ہمیں تحفظ فراہم ہو سکے۔ ،،

تفتان میں زائرین پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد وفاقی محکمہ داخلہ کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے ناکہ بندی کر کے تفتان اور ملحقہ علاقوں میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش السلام کے روپوش کارکنوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے اور آخری اطلاعات آنے تک یہ کارروائی جاری تھی اور اس آپریشن میں رسد کے لئے فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔

کشته شدن ۲۳ زائر شیعه پاکستانی در راه برگشت از ایران



به روز شده: 10:45 گرينويچ - دوشنبه 09 ژوئن 2014 - 19 خرداد 1393


مقامات پاکستانی می‌گویند که دست کم ۲۳ زائر شیعه پاکستانی در شهر تفتان در ایالت بلوچستان این کشور کشته شده‌اند.

کشته شدگان در بین گروهی از زائران شیعه بودند که در راه برگشت از ایران قرار بود شب را در شهر تفتان در بلوچستان پاکستان در نزدیکی مرز، سپری کنند.

بر اساس گزارشها افراد مسلح به محل اقامت این افراد حمله کرده تعداد زیادی از آنها را کشته و عده‌ای دیگر را مجروح کردند.

حمله علیه شیعیان پاکستان بارها اتفاق افتاده است به خصوص در ایالت بلوچستان که تعداد زیادی از شیعیان بویژه در کویته مرکز این ایالت سکونت دارند.

در اویل سال جاری میلادی نیز در حمله‌ای علیه شیعیان در همین ایالت تعدادی از انها کشته و مجروح شدند.

بیشتر این حملات از سوی گروههای تندروی سنی مذهب و مخالف شیعیان، صورت می‌گیرد.

به دنبال کشته شدن تعداد زیادی از آنها درکلیکسال گذشته میلادی، شیعیان کویته تا مدتی از دفن اجساد کشته شدگان خودداری کردند. آنها خواهان دخالت ارتش در این ایالت و حفاظت از اقلیت شیعه شدند.




Sunday, June 8, 2014

بلوچستان: تفتان میں شیعہ زائرین پر حملہ، 23 افراد ہلاک


محمد کاظم

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
پير 9 جون 2014

جنوری کے مہینے میں بھی بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر حملہ کیا گیا

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایرانی سرحد کے قریب علاقے تفتان میں اتوار کی شب شیعہ زائرین پر خودکش حملے اور دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 23 شیعہ زائرین ہلاک ہوئے ہیں اور متعدد زخمی ہو گئے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی کے ہمراہ اتوار کی شب کوئٹہ میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس حملے کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں اتوار کے روز 300 پاکستانی شیعہ زائرین آئے تھے اور وہ وہاں دو ہوٹلوں میں قیام پذیر تھے۔

انھوں نے بتایا کہ رات 9 بجے کے قریب ایک خود کش حملہ آور ایک ہوٹل کے قریب آیا اور وہاں سیکورٹی پر مامور لیویز فورس کے اہلکار پر فائرنگ کی جس سے لیویز فورس کا اہلکار شدید زخمی ہوا۔ اس کے فوراً بعد خود کش حملہ آور ہوٹل میں داخل ہوا اور وہاں اپنے آپ کو اڑا دیا۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا تاہم اس حملے کے بعد تین دیگر خود کش حملہ آور دوسرے ہوٹل میں داخل ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ دوسرے ہوٹل میں فائرنگ اور خود کش حملہ آوروں کو اپنے آپ کو اڑانے کے باعث 22 شیعہ زائرین ہلاک ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے کے فوراً بعد فرنٹیئر کور اور لیویز فورس کے اہلکار وہاں پہنچے جہاں حملہ آوروں اور ان کے درمیان فائرنگ کا بھی تبادلہ ہوا۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پر حملے کے بعد ملک بھر میں شیعہ برادری نے احتجاج کیا

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی سے وہاں حملہ آوروں کو مزید لوگوں کو ہلاک کرنے کا موقع نہیں ملا۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس حملے میں 7 افراد زخمی بھی ہوئے جن کو ان کی درخواست پر علاج کے لیے ایران منتقل کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پر یہ پہلا حملہ تھا جبکہ رواں سال کے دوران بلوچستان میں شیعہ زائرین پر دوسرا بڑا حملہ تھا۔

21 جنوری 2014 کو ضلع مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس کے قریب دھماکے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے تھے۔

مستونگ کے ڈی پی او محمد عابد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس قافلے کی سکیورٹی پر چار گاڑیاں مامور تھیں، لیکن خودکش بمبار نے اپنی گاڑی بس سے ٹکرا دی۔

اس سے قبل اسسٹنٹ کمشنر مستونگ شفقت انور شاہوانی کے مطابق شیعہ زائرین کی دو بسیں ایران سے واپس آ رہی تھیں کہ درنگڑ کے علاقے میں ان کے راستے پر دھماکہ ہوا اور ایک بس اس کی زد میں آ گئی۔

جنوری کے مہینے میں بلوچستان میں ایران سے آنے والے زائرین کی بس پر حملے کا دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل یکم جنوری کو کوئٹہ شہر کے مغربی بائی پاس پر اختر آباد کے علاقے میں ایسی ہی ایک بس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

At least 22 people killed in suicide attack near Pak-Iran border

By Syed Ali Shah


QUETTA: At least 22 people were killed and several others injured in two coordinated suicide blasts near the Pak-Iran border, Taftan late on Sunday night an high level official confirmed.

Balochistan's Home Secretary Akbar Hussain Durrani told Dawn.com that 10 buses carrying Shia pilgrims had entered Pakistan from Iran.

"There were explosions after the buses were parked outside the hotels where the pilgrims were going to stay over night before they commenced their journey back the following day," Durrani said adding that the blasts were followed by intense firing. He feared the casualties will continue to rise.

Frontier Corps and levies personnel were called in to bring the situation under control. It has been more than right years that Shia pilgrims in Mastung and other parts of Balochistan are targeted by militants.

Presently, no militant organisation has claimed responsibility for the attack.

3 killed, several injured as pilgrims' bus attacked in Taftan

 08 June,2014

QUETTA (Dunya News) – At least three persons have been killed and several others injured as gunmen attacked a pilgrims’ bus parked outside a hotel in Taftan area with firing and grenade here on Sunday night, Dunya News reported.

According to sources, pilgrims’ bus was arriving from Iran to Quetta and unidentified men attacked the bus when it was parked outside a hotel in Taftan.

Reportedly, armed men kept firing for 10-15 minutes. At least three were reported dead and several others wounded as result of firing and hand grenade attacks.

According to the Assistant Commissioner, the rescue teams have been sent to the crime scene. The attacked stirred a sense of fear across the area.

Majlis Wahdatul Muslimeen chief Allama Syed Sajid Ali Naqvi strongly condemned the attack. He demanded the government to immediately provide assistance to those injured and move them to safer place.

Sunday, June 1, 2014

Aaj TV on Hazara Community of Quetta