Tuesday 26 February 2013
بارہ جنوری 2013 کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میتوں کے ساتھ احتجاجی دھرنے میں موجود ہیں — اے ایف پی تصویر
کیا دھرنے تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟
سیاسی کارکنوں میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ مسائل دھرنے سے ہی حل ہو سکتے ہیں یا یہ دھرنے کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ گواحتجاج کی یہ شکل پرانی ہے مگرآج بھی موثر ہے۔ حالیہ کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنوں نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔
ہر طرح کا احتجاج دراصل سماج سے رجوع کرنے کا مظہر ہے۔ مظاہرہ تھوڑٰی دیر کا احتجاج ہے جس کے ذریعے متعلقہ حکام کو مطالبات سننے پر مجبور کیا جاتا ہے یا ان مطالبات کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلائی جاتی ہے اور رائے عامہ بنائی جاتی ہے۔
ریلی اور جلوس موبائل احتجاج ہے۔ جس میں احتجاج کرنے والے اہم علاقوں کا گشت کرکے لوگوں کو اپنی اور اپنے مطالبات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
دھرنے کی نوعیت ان دو سے مختلف ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ مطالبے پر اصرار کرنا ہے۔ یعنی یہ احتجاج کسی عمل کو روکنے یا عمل پر متعلقہ حکام کو مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مظاہرین کسی اہم جگہ پر دھرنا مار کر اس طرح بیٹھ جاتے کہ کوئی مخصوص عمل کو روک سکیں یا اس میں رکاوٹ بنیں۔ دھرنے میں عزم اور مالکی زیادہ ہوتی ہے کہ ہم تب تک بیٹھے ہیں جب تک مطالبات منظور نہیں ہوتے۔ پھر انہیں زبردستی اٹھایا نہیں جاتا یا گرفتار نہیں کیا جاتا۔
دھرنوں کی حالیہ لہر وال اسٹریٹ پر قبضے سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد بڑا اور کامیاب تجربہ مصر کے التحریر اسکوائر کا ہے۔ جس نے مصری حکومت کا خاتمہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کی متحرک قوتوں کو اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی کو برقرار رکھنا خاصا مسئلہ ہو رہا ہے۔
دھرنا دراصل راست قدم کی ایک شکل ہے، مگرعدم تشدد پر مبنی پرامن طور احتجاج ہے۔
عام طور پر دھرنے احتجاج کا کامیاب ترین نسخہ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ پورے عمل میں رخنہ پیدا کرتے ہیں۔ پرامن رہتے ہوئے یہ کسی بھی علاقے کو بند کرنے کا موثرترین طریقہ ہے۔
احتجاج کرنے والے پرامن ہوتے ہیں ایسے میں حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو بھی مصیبت میں آجاتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کی ہمدردیاں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔
دھرنے ہمیشہ سے سول نافرمانی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران احتجاج کے اس طریقے کے نتیجے میں شہری حقوق کا قانون منظور ہوا۔ اور اس کے بعد نسلی بنیاد پر عوامی مقامات پر علحدگی ختم ہوئی۔
آگے چل کر دھرنے نے گھیراؤ اور قبضے کی تحریک کوجنم دیا۔ یہ احتجاج کی شکل مزدوروں کی جدوجہد سے شروع ہوئی جو بہتر تنخواہوں سے لیکر سرمایہ داری نظام کے خاتمہ تک کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مزدوردھرنا مار کر بیٹھ جاتے تھے اور کارخانہ چلنے نہیں دیتے تھے۔
بعد میں قبضے کی تحریک سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگی۔ 2010 میں لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر میں جمہوریت کا گاؤں کے نام سے خیمہ بستی لگائی گئی۔ 2011ع میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک چلی۔ جو دنیا بھر میں چل رہی ہے۔ گزشتہ سال اسپین میں بھی دھرنوں کی تحریک چلی۔ اس کے بعد مصر میں انقلاب التحریر اسکوائر آیا۔
دنیا بھر کے مزدوروں کی طرح پاکستان میں بھی مزدور یونینز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے دیتی رہی ہیں۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ بھی دھرنے کے نتیجے میں منظور ہوا تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کی قیادت میں سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا تھا۔
زبردستی منظور کرایا گیا قانون اس وجہ سے برقرار رہا کیونکہ صوبے میں رائے عامہ اس کے حق میں تھی۔ مزید یہ بھی کہ ریاستی مشینری پر وڈیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا۔ اس لیے انہیں یقین تھا کہ وہ ہاریوں کے حق میں بنائے گئے اس قانون کو غیر موثر رکھیں گے اور عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اس قانون کو منظور ہوئے آدھی صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر کبھی بھی اس پر عمل نہیں ہوا۔
پاکستان کی سیاست میں دھرنے کا تصور مولانا عبدالحمید بھاشانی نے ساٹھ کے عشرے کے آخر میں گھیراؤ جلاؤ کے نعرے سے کیا۔ بائیں بازو کے بعض گروپ بھی اس نعرے میں بہہ گئے۔
ساٹھ اور ستر کے عشرے میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بعض مزدوریونینز نے کارخانوں کا گھیراؤ کر مطالبات منوانے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں کراچی اور ملتان میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور کچھ مزدورہلاک بھی ہوئے۔
اس تحریک کے بعض منفی نتائج بھی نکلے۔ سرمایہ داروں نے اس تحریک کو بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کے ساتھ جوڑا اور ملک سے سرمایہ کو باہر لے گئے۔ مہم جوئی کی آڑ میں حکومت کو موقعہ ملا کہ وہ ملک میں مزدور تحریک کو کچل دے۔
ماضی قریب میں ہمارے ملک میں دھرنے کی سیاست لانگ مارچ کیساتھ آئی۔ نواز شریف کے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف بینظیر بھٹو نے سندھ پنجاب سرحد پر کموں شہید کے مقام پر اور ولی خان نے اٹک کے پل پر دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنے اگرچہ چند گھنٹوں کے لیے تھے مگر موثر ثابت ہوئے اور نواز شریف حکومت کو آئندہ چند ماہ میں جانا پڑا۔
حال ہی میں علامہ طاہرالقادری نے انتخابی قوانین اور نگراں حکومت کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ یہ دھرنا ایک حد تک کامیاب رہا کہ حکومت کو ان کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔
انہی دنوں کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 83 سے زائد افراد دہشتگردی کے ایک واقعہ میں ہلاک ہوئے۔ جس کے خلاف دھرنا دیا۔ حکومت کو ان کے مطالبات ماننے پڑے۔
فروری کے دوسرے ہفتے میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ ان واقعات کو ہزارہ کمیونٹی –جس کا تعلق اہل تشیع فرقے سے ہے– نے کمیونٹی کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا اور دو روز تک کوئٹہ میں دھرنے دیئے گئے۔
ملک بھر میں اہل تشیع نے کوئٹہ کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی دکھا کر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ تمام شاہراہیں بلاک کردی گئیں۔ مظاہرین نے ملزمان کی گرفتاری تک لاشیں دفنانے سے انکار کردیا۔ گزشتہ ماہ ان کے مطالبے پر بلوچستان میں رئیسانی کی صوبائی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ان کی لسٹ میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ کوئٹہ کا انتظام فوج کے حوالے کیا جائے۔
سندھ میں قوم پرست جماعتیں دھرنے دیتی رہی ہیں۔ مگر ان کے دھرنے موثر ثابت نہیں ہوئے۔ حال ہی میں قوم پرستوں نے متنازع بلدیاتی نظام کے خلاف حیدرآباد کے بائی پاس پر دھرنا دینے کی کوشش کی تھی، مگر پولیس نے ان سے بائی پاس خالی کرالیا۔ لیکن علامہ قادری کے دھرنے یا سندھ سمیت ملک بھر میں ہزارہ کیمونٹی کی حمایت میں لگنے والے دھرنوں کے خلاف پولیس یا رینجرز وغیرہ استعمال نہیں کی گئی۔
یہ معاملہ اس وجہ سے بھی حساس تھا کہ کوئٹہ میں درجنوں لوگوں کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ اور وہ مظاہرین لاشیں رکھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ عالمی برادری کے آواز اٹھانے کی وجہ سے معاملے کی حساسیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ یہ بھی کہ یہ ایک مذہبی فرقے کا معاملہ تھا جو سماج اور ریاست کے مختلف اداروں کے حصوں کو متاثر کر سکتا تھا۔
دھرنے کی اثرپذیری کی وجہ سے بعض سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا دھرنوں کو سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر بحث چل رہی ہے۔ اس بحث کے اہم نکات کو ان الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے۔
- عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں اگر صحیح نظریہ اور سچی قیادت کے تحت عوام سڑکوں پر آجائیں تو انقلاب آکر رہتا ہے۔
- اس طرح کے دھرنوں سے فرق پڑتا ہے۔
- تبدیلی شعور سے آتی ہے۔ ہمارے پاس آج بھی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ فوجّ آئے اور آکر حالات کو ٹھیک کرے۔ جبکہ فوج نے کئی سال حکومت کی مگر کوئی فائدہ نہیں۔
- پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ لوگوں کو کونسی تبدیلی چاہئے؟ لوگوں کو انفرادی مفادات سے آزاد کریں گے تب تبدیلی آئے گی۔
- ہم ایک گلی میں رہتے ہوئے بھی ساتھ نہیں تو انقلاب میں کیسے ساتھ ہونگے؟
- انقلاب لفظ کا اتنا غلط استعمال ہوا ہے کہ اب اس لفظ پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔
- دھرنے انقلابی یا سماجی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ انقلاب کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے نظریہ اور سوشل پلان چاہئے۔
- دھرنے سے شاید انقلاب لیا جا سکتا ہے مگر یہ تبدیلی برقرار کیسے رہے؟ ریاستی مشنری مزاحمت کرے گی۔ ریاستی مشنری پر قبضہ کرنا اور اسکو کنٹرول میں رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ دنیا میں ناکام انقلابوں اور تجربوں کی کہانیاں یہی بتاتی ہیں۔
- یہ ایک جدوجہد کی شکل ہے جسے مسلسل کرتے رہنے سے فرق پڑ سکتا ہے۔
- عرب دنیا میں انقلاب کیوں ناکام ہوئے؟ یہ سب دھرنا سیاست کے ذریعے آئے تھے۔ اگر باضابطہ کوئی تنظیم ہوتی تو لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچتا۔
دھرنے کے ذریعے شاید کوئی چھوٹا موٹا مطالبہ تو منوایا جاسکتا ہے لیکن ہر دھرنا کامیاب نہیں ہوتا۔ صرف وہی دھرنے کامیابی حاصل کر پاتے ہیں جن کی پشت پر کچھ دوسری طاقتیں بھی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دھرنے کے مطالبات عوام میں صرف مقبول ہی نہ ہوں بلکہ ان کے لیے شدت سے خواہش بھی موجود ہو۔
اگرکوئی سیاسی قوت یا کوئی پرکشش نعرہ عوام کو اتنا متحرک کر بھی دیتا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے، تو یہ قبضہ وقتی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے جس تنظیم کاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان جیسے ممالک میں ناپید ہے۔ ریاستی مشینری ابھی بھی اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایسے کسی چیلنج کا مقابلہ کرسکے۔ فرینچ انقلاب سمیت دنیا کے ناکام انقلابوں کے تجربے اور کہانیاں اس کی واضح مثال ہیں اور ان سے بڑا سبق بھی ملتا ہے۔
بلاشبہ عوام میں بڑی طاقت ہے۔ لیکن یہ طاقت جب ہی سیسہ پلائی دیوار بنتی ہے جب تنظیم کاری اور بے لوث قیادت بھی
وجود ہو۔