Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Saturday, September 24, 2011

Hazara asylum seekers in Curtin

by Refugee Action Coalition Sydney on Thursday, September 22, 2011 at 8:11pm

Today (Thursday 22 Sept) at 3:30 pm we had a small peaceful protest near administration building in our centre for 1 hour. More then 400 people attented this protest. The protest was to let the immigration know of how our family is back home (our last resided place Quetta, Pakistan where most of us were living illegally) and how people feel and how much they worry.

Almost 31 people have been martyred on 20th of this September on a bus which was carring more then 50 passengers. They were stopped by anti-hazara or anti-shia (who are against our ethnicity and religious faith). Only the hazaras were seperated from those passengers and then were shot on the spot to death just because they were Hazara and Shia.

This is what people said in speeches and people were holding banners saying, 'Where is UN? Why UN do not hear our voice? Stop killing of innocent Hazaras? Is being Hazara is a crime? At the end of the protest people went back to their compounds peacefully.

Please feel free to share.

killings in Quetta - Neither Pakistan nor Afghanistan is safe for Hazaras; by Refugee Action Coalition Sydney

on Thursday, September 22, 2011 at 11:56pm
MEDIA RELEASE

CURTIN ASYLUM SEEKERS HOLD PROTEST AT HAZARA KILLINGS IN QUETTA.
NEITHER PAKISTAN NOR AFGHNAISTAN IS SAFE FOR HAZARAS

Yesterday (Thursday 21 September), at 3.30pm, more than 400 mostly
Hazara asylum seekers staged a peaceful protest near the
administration building inside Curtin detention centre.
According to a statement released by the Curtin Hazara asylum seekers,
the hour-long demonstration was to let the immigration department know
of the dangerous situation that face their families in Quetta,
Pakistan.

Quetta has a large community of Hazaras who have fled persecution in
Afghanistan. But Pakistan is mostly Sunni Muslim and the Hazaras, who
are Shia Muslim, are increasingly the target of fundamentalist
killings in Quetta. Many of the Hazara asylum seekers families have
been left living illegally in Quetta.

“We want immigration department to know how we feel and how much we
worry [about our families’ situation].” the statement said.

The protest was held following news that on 20 September, over 29
Hazaras traveling on a bus near Quetta, were separated from other
passengers and executed. It was the third such attack in a month.

A number of speeches at the Curtin protest told of the persecution of
Hazara and Shia Mislims. The asylum seekers held banners saying,
“Where is UN?”; Why UN do not hear our voice?; Stop killing of
innocent Hazaras?; Is being Hazara is a crime?

At the end of the peaceful protest the asylum seekers returned to
their compounds. But the anxiety remains.

On the same day as the mass killing of Hazaras in Quetta, the
Australian government deported an Hazara man from Villawood detention
centre to Pakistan.

“The man is not a citizen of Pakistan. And the immigration department
ignored the very real dangers that confront the Hazaras in Quetta. The
deported man’s son had been injured in a Taliban attack in May this
year,” said Ian Rintoul, spokesperson for the Refugee Action
Coalition.

“The Australian government has directly violated its commitments not
to refoule asylum seekers. We are also calling on the government to
terminate its Memorandum of Agreement with the Afghan government to
return Hazaras to Afghanistan?

“How can the Australian government possibly justify such an agreement,
when the attacks on the Nato base and the killing of Burhanuddin
Rabbani, the head of the Afghan Peace Council show that Kabul itself
is not safe?” asked Rintoul.

For more information contact Ian Rintoul 0417 275 713

Hotline (Mastung Killing) 22 September 2011

Friday, September 23, 2011

خمینی چاہیے



محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

’حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پر مچھر مارنا زیادہ مشکل ہے شیعہ کو مارنا نسبتا آسان‘

مستونگ میں زیارت پر جانے والے اہل تشیع کے جنازوں کو دیکھ کر مجھے وہ نادان پاکستانی یاد آئےجو ہمیشہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اس ملک کو ایرانی انقلاب کی ضرورت ہے۔

ہمارے کئی اداریہ نویس اور دانشور ایران کے صدر احمدی نژاد کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ دن رات یہ ماتم کرتے ہیں کہ اس مٹی سے کوئی ایسا سادہ دل اور جرآت مند رہنما پیدا کیوں نہیں ہوتا جو امریکہ کو آنکھیں دکھا سکے۔

رکشہ ڈرائیور، بینکار حتّی کہ عبدالستار ایدھی بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اس ملک کو ایک خمینی کی ضرورت ہے۔

کیا ان محب وطن شہریوں کو احساس ہے کہ اگر اس ملک میں اگر احمدی نژاد یا خمینی پیدا ہو تو اُس کی عمر کتنی طویل ہو گی، اور اُسکے بعد کیا ہو گا؟

غالباً وہی جو مستونگ میں ہونے والی بربریت کے بعد ہوا۔ تاسف، مذمت، سوگ اور پھر خفیہ ہاتھ پر الزام۔

کیا پوری قوم نہیں جانتی کہ ہماری گلیوں مسجدوں اور منبروں سے کافر کافر شیعہ کافر کے جو نعرے گونجتے ہیں اُنہیں فوج، پولیس، اور خفیہ ایجنسیوں نے تو کیا روکنا تھا کبھی کسی محلے دار یا غازی کو بھی یہ توفیق ہوئی ہے کہ مودب ہو کر کہے کہ بھائیوں یہ فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو کہ کون کافر ہے اور کون نہیں ۔
ملک کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پر مچھر مارنا زیادہ مشکل ہے شیعہ کو مارنا آسان۔ رحمان ملک یہ کہہ کر اپنی ذِمے داری سناتے ہیں کہ اِن زائرین کو چاہیے تھا پہلے ہمیں بتا تو دیتے کہ جا کہاں رہے تھے۔

ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ابھی مردہ خانے بھی نہیں پہنچی تھیں کہ لشکر جھنگوی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ٹی وی اینکرز اپنی ازلی معصومیت کے ساتھ رات کو پھر یہ پوچھتے پائے گئے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟

چند ماہ پہلے پاکستان میں شیعہ کافر، مُسلح مہم کے سالار ملک اِسحاق جب لاہور کی ایک عدالت سے اپنی معصومیت کا سرٹیفکیٹ لے کر رہا ہوئے تو اُن کا اِستقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے کیا گیا۔

ایک ٹی وی اینکر نے لائیو ٹی وی پر اُن سے پوچھا کہ اب اُن کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ملک اِسحاق نے اُتنی ہی معصومیت سے فرمایا کہ وہ کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔ نہ انٹرویو کرنے والے نہ ٹی وی دیکھنے والوں کو یہ جاننے کے ضرورت تھی کہ اُن کا مشن کیا ہے۔ اُن پر درجنوں شیعہ شہریوں کے قتل کا الزام تھا جن میں سے ایک بھی ثابت نہ ہو سکا۔

پاکستان میں شیعہ کافر، مُسلح مہم کے سالار ملک اِسحاق جب لاہور کی ایک عدالت سے اپنی معصومیت کا سرٹیفکیٹ لے کر رہا ہوئے تو اُن کا اِستقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے کیا گیا۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ ملک اِسحاق کا لشکر جھنگوی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ لشکر جھنگوی پر پابندی ہے (یہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ لشکر پر کیا کرنے کی پابندی ہے ) سپاہ صحابہ پر بھی پابندی ہے جو ایک زمانے میں انجمن سپاہ صحابہ ہوا کرتی تھی ۔ ملک اِسحاق تو اہل سُنت والجماعت کے ادنٰی کارکن ہیں۔

لیکن یہ انجمن ، یہ سپاہ، یہ لشکر، یہ جماعت کیا چاہتے ہیں اس بارے میں ہمیں کوئی اہل کار کوئی اداریہ نویس نہیں بتاتا۔ اور وہ بتائیں بھی کیوں؟ کیا پوری قوم نہیں جانتی کہ ہماری گلیوں مسجدوں اور منبروں سے کافر کافر شیعہ کافر کے جو نعرے گونجتے ہیں اُنہیں فوج، پولیس، اور خفیہ ایجنسیوں نے تو کیا روکنا تھا کبھی کسی محلے دار یا غازی کو بھی یہ توفیق ہوئی ہے کہ مودب ہو کر کہے کہ بھائیو، یہ فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو کہ کون کافر ہے اور کون نہیں۔

اور تو اور مولانا فضل الرّحمن بھی سانحہ مستونگ کے بعد یہ کہتے پائے گئے کہ یہ خفیہ اداروں کی سازش ہے، مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی سازش ہے اور مذہبی جماعتیں اس کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہیں۔

کیا وہ سپاہ صحابہ اور اُس پر پابندی کے بعد بننے والی تنظیموں کو غیر مذہبی قرار دے رہے ہیں۔ کیا اس مسلح مہم کے سالار حق نواز جھنگوی مولانا فضل الرّحمن کی جماعت کے ہی رہنما نہ تھے ۔کیا جھنگوی صاحب کے فرمودات آج تک جمیعت علمائے اسلام کے تنظیمی پرچوں میں نہیں چھپتے۔

بلکہ نژاد اور خمینی جیسے ناموں کو واصل جہنم کرنے سے پہلے اُن کا شناختی کارڈ بھی چیک کرنے کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑتی اور اگر اُس کے قتل کے الزام میں کوئی گرفتار ہوتا تو ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے باعزت بری پاتا اور پھولوں کی پتیوں کی بارش میں اس عزم کا اعادہ کرتا کہ جو کیا تھا وہ بار بار کریں گے۔
پنجاب پر تیس سال سے حکومت کرنے والے جھنگ اور وہاں سے پھوٹنے والی اس تشدد کی لہر کا نام لیتے ہوئے ایسے شرماتے ہیں جیسے نوبیاہتا دُلہن اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہے ۔

تو پاکستان میں احمدی نژاد اور خمینی جیسے نجات دہندہ کے خواب دیکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ اگر اس نام کا کوئی شخص پاکستان میں پیدا ہو جائے تو اُس سے نمٹنے کے لیے کسی انجمن، کسی لشکر، کسی جماعت کا ایک ادنی کارکن ہی کافی ہے۔

بلکہ احمدی نژاد اور خمینی جیسے ناموں کو مٹا کر ’ثوابِ دارین‘ حاصل کرنے سے پہلے اُن کا شناختی کارڈ بھی چیک کرنے کی زحمت گوارا نہ کرنی پڑتی اور اگر اُس کے قتل کے الزام میں کوئی گرفتار ہوتا تو ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے باعزت بری پاتا اور پھولوں کی پتیوں کی بارش میں اس عزم کا اعادہ کرتا کہ جو کیا تھا وہ بار بار کریں گے۔

Source,

BBC URDU

Three killed in Quetta bus attack

By Hafeez Baloch - Sep 23rd, 2011

Quetta: Unknown gunman opened fire on a passenger van, killing at least four people and injuring two other in Quetta, police said on Friday.
According to reports the incident on Sibbi road. Police said the bus was heading toward Mach, Bolan when it came under attack.
Police and rushed to the spot and cordoned off the area. The dead and injured were taken to nearby hospital. Sources said four armed men intercepted a van carrying 15 people on board and disembarked members of Hazara community and opened fire. No group has claimed responsibility for the attack.

Source,

The News Tribune

Shahid Nama - By Dr Shahid Masood - 20 Sep 2011 - Part - 3/3

Crime Scene September 21, 2011 SAMAA TV 1/2