Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.
Thursday, April 12, 2012
Three more Hazaras shot dead in Quetta
Asylum boat lost off Indonesia, 64 feared drowned
BY: PETER ALFORD, JAKARTA CORRESPONDENT From: The Australian April 13, 2012 12:00AM
Source: The Australian
INDONESIAN water police were last night searching waters off Sumbawa Island for about 60 asylum-seekers, including seven children, whose Australia-bound boat is believed to have capsized in rough seas.
Last night, more than seven hours after water police headquarters in Jakarta was notified of the incident, rescuers had not located the boat or passengers.
The police search by five vessels and a helicopter was suspended overnight and there was no word of survivors.
The Australian understands the boat left Bali late on Wednesday night with 64 passengers, ethnic Hazaras from Afghanistan and Pakistan, and crew. The wooden vessel is believed to have capsized about noon off the southwest coast of Sumbawa, but remained afloat. At 7.30pm central Indonesian time (10.30pm AEST), a relative of an Afghan aboard the boat said he received a mobile phone message that the vessel was sinking
The chief of Indonesian water police operations, Lieutenant Colonel Gunardi, said his officers had been able to speak to several asylum-seekers by mobile phones but had not found them by nightfall. A Sumbawa policeman said waves in the area were 2m to 3m high.
Three patrol police boats and two tugs and a helicopter from mining company Newmont Nusa Tenggara had been searching during the afternoon.
The fishing boat was heading for Australian waters in the area of Ashmore Reef.
A spokesman for the Australian Maritime Safety Authority said its Rescue Co-ordination Centre had received a phone call from a refugee advocacy centre in Brisbane to advise that a vessel was sinking off Indonesia. AMSA assessed the information as credible and passed it to Indonesian authorities.
Smuggling activity has intensified in the central and eastern Indonesian islands in the past month; six boats in the past month have reached Ashmore, Scott Reef and the Tiwi Islands.
The past week has seen a resurgence of smuggling on the main routes from Java to Christmas Island, with two boats carrying 255 people intercepted near the island on Tuesday night.
The Australian
Source: The Australian
INDONESIAN water police were last night searching waters off Sumbawa Island for about 60 asylum-seekers, including seven children, whose Australia-bound boat is believed to have capsized in rough seas.
Last night, more than seven hours after water police headquarters in Jakarta was notified of the incident, rescuers had not located the boat or passengers.
The police search by five vessels and a helicopter was suspended overnight and there was no word of survivors.
The Australian understands the boat left Bali late on Wednesday night with 64 passengers, ethnic Hazaras from Afghanistan and Pakistan, and crew. The wooden vessel is believed to have capsized about noon off the southwest coast of Sumbawa, but remained afloat. At 7.30pm central Indonesian time (10.30pm AEST), a relative of an Afghan aboard the boat said he received a mobile phone message that the vessel was sinking
The chief of Indonesian water police operations, Lieutenant Colonel Gunardi, said his officers had been able to speak to several asylum-seekers by mobile phones but had not found them by nightfall. A Sumbawa policeman said waves in the area were 2m to 3m high.
Three patrol police boats and two tugs and a helicopter from mining company Newmont Nusa Tenggara had been searching during the afternoon.
The fishing boat was heading for Australian waters in the area of Ashmore Reef.
A spokesman for the Australian Maritime Safety Authority said its Rescue Co-ordination Centre had received a phone call from a refugee advocacy centre in Brisbane to advise that a vessel was sinking off Indonesia. AMSA assessed the information as credible and passed it to Indonesian authorities.
Smuggling activity has intensified in the central and eastern Indonesian islands in the past month; six boats in the past month have reached Ashmore, Scott Reef and the Tiwi Islands.
The past week has seen a resurgence of smuggling on the main routes from Java to Christmas Island, with two boats carrying 255 people intercepted near the island on Tuesday night.
The Australian
کوئٹہ: شاہراہ اقبال اور لیاقت بازار میں فائرنگ، 3 افراد جاں بحق، 2 زخمی
کوئٹہ … کوئٹہ کے علاقوں شاہراہ اقبال اور لیاقت بازار میں فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق کوئٹہ کے علاقوں شاہراہ اقبال اور لیاقت بازار میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے ہیں، واقعے کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
Jang Urdu
Jang Urdu
پاکستانیوں کے گلے شکوے
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: جمعرات 12 اپريل 2012
کبھی شدت پسندی کی وارداتیں تو کبھی قدرتی آفات کی گرفت
مسئلے مسائل تو ہر کسی کے ساتھ بندھے ہیں۔ یہ تو زندگی کا لازمی جز ہیں۔ ان کے بغیر زندگی بھی شاید بد مزہ معمول بن کر رہ جائے۔ تو پھر پاکستان میں بعض لوگ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر پر کیوں اتنا چیختے چلاتے ہیں؟ تو یہ چیخ و پکار بھی معمولات زندگی بن گئی ہے۔
ایسے میں مجھے شکایت گلگت، کرم اور کوئٹہ کی اہل تشیع آبادی سے بھی ہے۔ لیکن اپنے سے پہلے ان کی دو اہم شکایات دیکھ لیتے ہیں۔
شکایت نمبر ون: حکومت ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہی؟
جواب: ایسے سنگین معاملات حکومت آپ اور مجھ پر چھوڑ دیتی ہے لہذا ’حکومت ندارد’ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔ بجلی کے لیے جنریٹر، پانی کے لیے بورنگ اور روزانہ کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے گلی کے کونے کا انتظام خود کرنا پڑتا ہے تو پھر تحفظ کی ذمہ داری ان گنت مسائل میں گھری ناتواں حکومت پر کیوں ڈالی جائے؟ یہ آج کی بات تو نہیں کب سے سلسلہ چل رہا ہے ہاں اس میں البتہ تیزی اب یقینا آئی ہے۔
پھر پاکستان کی مجموعی آبادی کے تقریباً بیس فیصد طبقے کے لیے حکومت کیا خصوصی اقدامات کرے گی؟ وہ آپ سے کئی گنا کم ہندوؤں اور عیسائیوں کا تحفظ نہیں کرسکتی تو آپ کی آبادی تو ماشا اللہ تقریباً پندرہ بیس فیصد ہیں۔ پھر اتنے بکھرے ہوئے ہیں آپ پورے ملک میں کہ حکومت کی دو آنکھیں کہاں کہاں آپ پر نظر رکھیں۔
سیاچن جیسی قدرتی آفت سے ہر آنکھ آبدیدہ ہے
حکومت کے خاموش تماشائی بننے کے پیچھے بھی ایک چالاک حکمت کار فرما ہے۔ معاف کیجیے گا اس کا میرے سازشی دماغ کے مطابق مقصد ان کی آبادی کو شاید ’مینج ایبل’ سطح پر لانا ہے۔ شدت پسند تنظیموں نے بھی تو ہر جگے ہی جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ ہو تو بات ہو۔ بےچارے رحمان ملک کراچی بھاگیں، کوئٹہ جائیں یا گلگت کا رخ کریں۔ نہ جانے کیوں ابھی تک قبائلی علاقوں کے لوگ ان سے محفوظ کیسے ہیں؟
شکایت نمبر دو: پاکستانی میڈیا توجہ نہیں دے رہا؟
جواب: پاکستان میں بےچارے نیوز چینلز ہیں ہی کتنے ہیں؟ دو تین درجن ہی تو ہیں۔ پھر اس مسائلستان میں مسائل کی کیا کوئی کمی ہے؟ بس ایک مسئلے کو سر سے پوری طرح پکڑ نہیں پاتے کہ دوسرا دُم دبا کر ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ بلوچستان کو چھوا نہیں کہ گلگت گرم ہوگیا، زرداری کا پیچھا چھوڑا نہیں کہ سیاچن جیسی قدرتی آفت سر پر آن پڑی۔
خبروں کی اس بھرمار میں ایک دشواری یہ بھی پیش آتی ہے کہ تھانے کے ایس ایچ او کا تبادلہ اہم ہے یا وینا ملک کا نیا چکر۔ پھر خبر جتنی بھی متوازن ہو یہودی یا پھر بھارتی ایجنٹ کا لیبل تو ہمیشہ تیار جیب میں پڑا رہتا ہے۔ ایسے میں صحافی غریب کرے تو کیا کرے۔
پاکستان میں بہتری شاید تبھی آئے گی جب فرقہ وارانہ حملوں کا الگ، خودکش حملوں کا الگ اور آنے ٹکے کے جرائم کا الگ چینل ہو۔ تب سب کو مناسب کوریج نہ ملنے کی شکایت نہیں رہے گی۔
حکومتی موقف:جس قسم کے حالات سے پاکستانی اب تک گزرے ہیں اگر قتل و غارت گری کے خلاف احتجاج نہ ہو، بجلی و گیس کی قلت کے ستائے بھی نہ ہوں تو پیپلز پارٹی کو شک ہے کہ وہ ویسے ہی سڑک پر نکلنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ کسی اور کے خلاف نہیں تو حکمرانوں کے خلاف ہی دو چار نعرے لگا کر اندر کی بھڑاس نکالنے کی انہیں عادت سی ہوگئی ہے۔ بقول حکومت انہیں گھروں میں خاموش نہ بیٹھنے کی عادت سے ہوگئی ہے۔ یہی مسئلہ ہے ان کا؟
نوٹ: میرا طنز اپنی جگہ لیکن ان کی شکایت بھی دیگر پاکستانیوں کے گلے شکوے کی طرح وزن رکھتی ہیں۔ اس کالم کے شائع ہونے کے بعد دو چار غصہ بھری ای میلیں تو آ ہی جائیں گی۔
BBC URDU
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: جمعرات 12 اپريل 2012
کبھی شدت پسندی کی وارداتیں تو کبھی قدرتی آفات کی گرفت
مسئلے مسائل تو ہر کسی کے ساتھ بندھے ہیں۔ یہ تو زندگی کا لازمی جز ہیں۔ ان کے بغیر زندگی بھی شاید بد مزہ معمول بن کر رہ جائے۔ تو پھر پاکستان میں بعض لوگ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر پر کیوں اتنا چیختے چلاتے ہیں؟ تو یہ چیخ و پکار بھی معمولات زندگی بن گئی ہے۔
ایسے میں مجھے شکایت گلگت، کرم اور کوئٹہ کی اہل تشیع آبادی سے بھی ہے۔ لیکن اپنے سے پہلے ان کی دو اہم شکایات دیکھ لیتے ہیں۔
شکایت نمبر ون: حکومت ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہی؟
جواب: ایسے سنگین معاملات حکومت آپ اور مجھ پر چھوڑ دیتی ہے لہذا ’حکومت ندارد’ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔ بجلی کے لیے جنریٹر، پانی کے لیے بورنگ اور روزانہ کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے گلی کے کونے کا انتظام خود کرنا پڑتا ہے تو پھر تحفظ کی ذمہ داری ان گنت مسائل میں گھری ناتواں حکومت پر کیوں ڈالی جائے؟ یہ آج کی بات تو نہیں کب سے سلسلہ چل رہا ہے ہاں اس میں البتہ تیزی اب یقینا آئی ہے۔
پھر پاکستان کی مجموعی آبادی کے تقریباً بیس فیصد طبقے کے لیے حکومت کیا خصوصی اقدامات کرے گی؟ وہ آپ سے کئی گنا کم ہندوؤں اور عیسائیوں کا تحفظ نہیں کرسکتی تو آپ کی آبادی تو ماشا اللہ تقریباً پندرہ بیس فیصد ہیں۔ پھر اتنے بکھرے ہوئے ہیں آپ پورے ملک میں کہ حکومت کی دو آنکھیں کہاں کہاں آپ پر نظر رکھیں۔
سیاچن جیسی قدرتی آفت سے ہر آنکھ آبدیدہ ہے
حکومت کے خاموش تماشائی بننے کے پیچھے بھی ایک چالاک حکمت کار فرما ہے۔ معاف کیجیے گا اس کا میرے سازشی دماغ کے مطابق مقصد ان کی آبادی کو شاید ’مینج ایبل’ سطح پر لانا ہے۔ شدت پسند تنظیموں نے بھی تو ہر جگے ہی جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ ہو تو بات ہو۔ بےچارے رحمان ملک کراچی بھاگیں، کوئٹہ جائیں یا گلگت کا رخ کریں۔ نہ جانے کیوں ابھی تک قبائلی علاقوں کے لوگ ان سے محفوظ کیسے ہیں؟
شکایت نمبر دو: پاکستانی میڈیا توجہ نہیں دے رہا؟
جواب: پاکستان میں بےچارے نیوز چینلز ہیں ہی کتنے ہیں؟ دو تین درجن ہی تو ہیں۔ پھر اس مسائلستان میں مسائل کی کیا کوئی کمی ہے؟ بس ایک مسئلے کو سر سے پوری طرح پکڑ نہیں پاتے کہ دوسرا دُم دبا کر ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ بلوچستان کو چھوا نہیں کہ گلگت گرم ہوگیا، زرداری کا پیچھا چھوڑا نہیں کہ سیاچن جیسی قدرتی آفت سر پر آن پڑی۔
خبروں کی اس بھرمار میں ایک دشواری یہ بھی پیش آتی ہے کہ تھانے کے ایس ایچ او کا تبادلہ اہم ہے یا وینا ملک کا نیا چکر۔ پھر خبر جتنی بھی متوازن ہو یہودی یا پھر بھارتی ایجنٹ کا لیبل تو ہمیشہ تیار جیب میں پڑا رہتا ہے۔ ایسے میں صحافی غریب کرے تو کیا کرے۔
پاکستان میں بہتری شاید تبھی آئے گی جب فرقہ وارانہ حملوں کا الگ، خودکش حملوں کا الگ اور آنے ٹکے کے جرائم کا الگ چینل ہو۔ تب سب کو مناسب کوریج نہ ملنے کی شکایت نہیں رہے گی۔
حکومتی موقف:جس قسم کے حالات سے پاکستانی اب تک گزرے ہیں اگر قتل و غارت گری کے خلاف احتجاج نہ ہو، بجلی و گیس کی قلت کے ستائے بھی نہ ہوں تو پیپلز پارٹی کو شک ہے کہ وہ ویسے ہی سڑک پر نکلنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ کسی اور کے خلاف نہیں تو حکمرانوں کے خلاف ہی دو چار نعرے لگا کر اندر کی بھڑاس نکالنے کی انہیں عادت سی ہوگئی ہے۔ بقول حکومت انہیں گھروں میں خاموش نہ بیٹھنے کی عادت سے ہوگئی ہے۔ یہی مسئلہ ہے ان کا؟
نوٹ: میرا طنز اپنی جگہ لیکن ان کی شکایت بھی دیگر پاکستانیوں کے گلے شکوے کی طرح وزن رکھتی ہیں۔ اس کالم کے شائع ہونے کے بعد دو چار غصہ بھری ای میلیں تو آ ہی جائیں گی۔
BBC URDU
Man gunned down in Quetta
QUETTA: Unidentified armed men gunned down one person and injured another in Qandhari bazaar in the provincial capital here on Thursday evening.
Police said that unknown gunmen riding bike opened fire at people standing in Qandhari bazaar in the metropolis. As a result, one person was killed and another wounded, police said adding that the assailants managed to escape from the scene.
The law enforcement personnel rushed to the site and shifted the dead body and the injured to Sandeman Civil Hospital. No cause of the attack could be ascertained. The name of the dead is identified as Sakhi and the injured as Muhammad Hussain.
A group of people and shopkeepers gathered on the Jinnah road and staged demonstration against the incident. The police have launched efforts to trace out the attackers. Further probe was underway. (APP)
THE NEWS
Police said that unknown gunmen riding bike opened fire at people standing in Qandhari bazaar in the metropolis. As a result, one person was killed and another wounded, police said adding that the assailants managed to escape from the scene.
The law enforcement personnel rushed to the site and shifted the dead body and the injured to Sandeman Civil Hospital. No cause of the attack could be ascertained. The name of the dead is identified as Sakhi and the injured as Muhammad Hussain.
A group of people and shopkeepers gathered on the Jinnah road and staged demonstration against the incident. The police have launched efforts to trace out the attackers. Further probe was underway. (APP)
THE NEWS
Quetta is the hub of crimes: Official
Quetta is the hub of crimes: Official
By Shehzad Baloch
Published: April 12, 2012
Earlier on March 28, around 180 DSPs were demoted according to the orders of the Supreme Court.
QUETTA:
Half of the crimes reported in Balochistan emanate from Quetta, according to Chief Secretary Babar Yaqoob Fateh Mohammad. He added that if the police managed to control crimes in the provincial capital alone, the law and order situation across the province would significantly improve.
In his first interaction with the media after taking over the post of chief secretary, Babar said Quetta and its surrounding areas were densely populated, resulting in the high rate of crimes in and around the city.
“The improvement of the law and order situation in Quetta will have a significant impact throughout Balochistan. Our government is, therefore, focusing on strengthening the police (in Quetta),” he told journalists at the 72nd Passing-out Parade of the Balochistan Police.
Babar added that there was a dire need of training, modern equipment and resources to strengthen the police force. “The government has decided to earmark a large amount for the Balochistan Police in the next budget,” he added.
In response to a query about highway hold-ups and increasing robberies, the chief secretary said the provincial government was making efforts to reduce crime on the highways. “The police have recovered several people who were kidnapped on the Sibi-Jacobabad highway. It shows that the police are not sitting quietly.”
While Babar appeared confident about the police, he refused to comment over rampant kidnappings in the province. “The Supreme Court has already taken this up, thus I will not comment on kidnappings,” he added.
Published in The Express Tribune, April 12th, 2012.
By Shehzad Baloch
Published: April 12, 2012
Earlier on March 28, around 180 DSPs were demoted according to the orders of the Supreme Court.
QUETTA:
Half of the crimes reported in Balochistan emanate from Quetta, according to Chief Secretary Babar Yaqoob Fateh Mohammad. He added that if the police managed to control crimes in the provincial capital alone, the law and order situation across the province would significantly improve.
In his first interaction with the media after taking over the post of chief secretary, Babar said Quetta and its surrounding areas were densely populated, resulting in the high rate of crimes in and around the city.
“The improvement of the law and order situation in Quetta will have a significant impact throughout Balochistan. Our government is, therefore, focusing on strengthening the police (in Quetta),” he told journalists at the 72nd Passing-out Parade of the Balochistan Police.
Babar added that there was a dire need of training, modern equipment and resources to strengthen the police force. “The government has decided to earmark a large amount for the Balochistan Police in the next budget,” he added.
In response to a query about highway hold-ups and increasing robberies, the chief secretary said the provincial government was making efforts to reduce crime on the highways. “The police have recovered several people who were kidnapped on the Sibi-Jacobabad highway. It shows that the police are not sitting quietly.”
While Babar appeared confident about the police, he refused to comment over rampant kidnappings in the province. “The Supreme Court has already taken this up, thus I will not comment on kidnappings,” he added.
Published in The Express Tribune, April 12th, 2012.
Wednesday, April 11, 2012
معترضان بامیان چراغ نفتی به سفارت آمریکا هدیه دادند
محمود کوچی
بی بی سی
به روز شده: 15:22 گرينويچ - چهارشنبه 11 آوريل 2012 - 23 فروردین 1391
شهروندان بامیان سال گذشته، در اعتراض به نبود برق چراغ نفتی بزرگی را در مرکز شهر نصب کردند و امسال چراغ مشابهی را به سفارت آمریکا هدیه دادند
دهها تن از نمایندگان نهادهای مدنی بامیان که در راه اندازی اعتراضهای مدنی و سمبولیک مشهورند، با گردهمایی در مقابل ساختمان مجلس نمایندگان افغانستان، علیه آنچه تبعیض در مصارف کمک های بین المللی می خوانند، اعتراض کردند.
این اعتراض با سکوت برگزار شد و معترضان در پایان اعتراض خود یک چراغ نفتی بزرگ را به نمایندگان مجلس دادند.
معترضان از نمایندگان مجلس خواستند، این چراغ نفتی را به سفارت آمریکا در کابل، هدیه دهند تا آنها بدانند که ولایت بامیان هنوز برق ندارند و از میلیاردها دلار کمکهای جامعه جهانی در بیش از ده سال گذشته، چیزی نصیب آنها نشده است.
شماری از نمایندگان مجلس سنا و نمایندگان، نیز به رسم حمایت از معترضان به جمع آنها پیوستند.
محمد علم ایزدیار، نایب اول مجلس سنا به معترضان گفت، خواستهای آنان را با مقام های دولت افغانستان و جامعه بین المللی در میان خواهد گذاشت.
معترضان در پایان قطعنامه ای را نیز صادر کردند که در آن به توسعه متوازن در مناطق مختلف، رفع هر نوع تبیض سیاسی و قومی، مشارکت عادلانه در قدرت، تاکید شده است.
بامیان در مرکز افغانستان از آرام ترین مناطق افغانستان در ده سال گذشته بوده، اما توجهی چندانی به بازسازی این ولایت نشده است
معترضان همچنین از دولت افغانستان خواستند، سیاستی را که بعد از ۲۰۱۴ و بعد از خروج نیروهای خارجی از افغانستان در پیش خواهند گرفت، بصورت شفاف برای آحاد مردم افغانستان توضیح دهد.
مدال تقدیر به الاغهای آب رسان
در سالهای گذشته، شهروندان بامیان در اعتراض به عدم توجه دولت به جاده های این ولایت، بخشی از جاده اصلی مرکز ولایت را در یک اعتراض مدنی، کاهگل کردند.
شهروندان بامیان همچنین در اعتراض به عدم توجه دولت به آب آشامدنی این ولایت، به الاغ های خود که از آنها برای تامین آب آشامیدنی استفاده می کنند، مدال دادند.
و همچنین چراغ نفتی بزرگی را در اعتراض به بی توجهی دولت به برق این ولایت، ساختند و آن را در چهار راه مرکزی شهر بامیان نصب کردند.
بعد از آن این چهار راه به "چهار راه هریکین" (چراغ نفتی) مسما شده است.
این اقدامات شهروندان بامیان، این ولایت را در به راه اندازی اعتراض های مدنی، آرام و شایسته پر آوازه ساخته است.
روز ملی اعتراض مدنی
در قطعنامه پایانی معترضان بامیان همچنین آمده است که دولت افغانستان روز ۲۲ حمل/ فروردین را به عنوان روز ملی اعتراضهای مدنی در تقویم کشور ثبت کند. ۲۲ حمل روزی است که بامیانی ها با کاهگل کردن جاده مرکز شهر نخستین اعتراض مدنی و سمبولیک خود را آغاز کردند.
بامیان کوهستانی و برفگیر است، مقام های محلی و موسسه آقا خان سعی کرده با رواج اسکی، صنعت جهانگردی بامیان را احیا کنند
اعتراضها و تظاهرات در افغانستان بارها، خسارات جدی مالی و در مواردی حتی تلفات جانی را نیز در پی داشته است.
کارشناسان معتقدند که اگر روش های مسالمت آمیز شهروندان بامیانی در راه اندازی اعتراض های مدنی، دنبال شود، هم از تلفات و خسارات ناشی از اعتراض های خشن جلو گیری می شود و هم صدای معترضان خوبتر به گوش دولت و جامعه جهانی می رسد.
ولایت پرآوازه اما فراموش شده
ولایت بامیان در مرکز افغانستان از امن ترین مناطق این کشور در یک دهه گذشته بوده اما دولت به بازسازی این ولایت و اعتراض های مدنی پی هم ساکنان توجهی نکرده است.
مجسمه های بزرگ بودا، و طبعیت خوش و آب و هوای بامیان در سالهای قبل از جنگ، این ولایت را به مرکزی برای جذب جهانگردان بدل کرده بود و از این طریق درآمد خوبی را نصیب افغانستان می کرد.
در سالهای جنگ و بویژه بعد از انهدام مجسمه های بزرگ بودا توسط طالبان، حالا صنعت جهانگردی بامیان هم رونق چندانی ندارد.
اگرچه مقام های محلی بامیان و شماری از نهادهای بین المللی از جمله موسسه آقاخان، در چند سال اخیر سعی کرده اند، صنعت جهانگردی بامیان را احیا کنند اما نا امنی راه های منتهی به بامیان توفیق چنین برنامه هایی را به حد اقل رسانده است.
BBC Farsi
بی بی سی
به روز شده: 15:22 گرينويچ - چهارشنبه 11 آوريل 2012 - 23 فروردین 1391
شهروندان بامیان سال گذشته، در اعتراض به نبود برق چراغ نفتی بزرگی را در مرکز شهر نصب کردند و امسال چراغ مشابهی را به سفارت آمریکا هدیه دادند
دهها تن از نمایندگان نهادهای مدنی بامیان که در راه اندازی اعتراضهای مدنی و سمبولیک مشهورند، با گردهمایی در مقابل ساختمان مجلس نمایندگان افغانستان، علیه آنچه تبعیض در مصارف کمک های بین المللی می خوانند، اعتراض کردند.
این اعتراض با سکوت برگزار شد و معترضان در پایان اعتراض خود یک چراغ نفتی بزرگ را به نمایندگان مجلس دادند.
معترضان از نمایندگان مجلس خواستند، این چراغ نفتی را به سفارت آمریکا در کابل، هدیه دهند تا آنها بدانند که ولایت بامیان هنوز برق ندارند و از میلیاردها دلار کمکهای جامعه جهانی در بیش از ده سال گذشته، چیزی نصیب آنها نشده است.
شماری از نمایندگان مجلس سنا و نمایندگان، نیز به رسم حمایت از معترضان به جمع آنها پیوستند.
محمد علم ایزدیار، نایب اول مجلس سنا به معترضان گفت، خواستهای آنان را با مقام های دولت افغانستان و جامعه بین المللی در میان خواهد گذاشت.
معترضان در پایان قطعنامه ای را نیز صادر کردند که در آن به توسعه متوازن در مناطق مختلف، رفع هر نوع تبیض سیاسی و قومی، مشارکت عادلانه در قدرت، تاکید شده است.
بامیان در مرکز افغانستان از آرام ترین مناطق افغانستان در ده سال گذشته بوده، اما توجهی چندانی به بازسازی این ولایت نشده است
معترضان همچنین از دولت افغانستان خواستند، سیاستی را که بعد از ۲۰۱۴ و بعد از خروج نیروهای خارجی از افغانستان در پیش خواهند گرفت، بصورت شفاف برای آحاد مردم افغانستان توضیح دهد.
مدال تقدیر به الاغهای آب رسان
در سالهای گذشته، شهروندان بامیان در اعتراض به عدم توجه دولت به جاده های این ولایت، بخشی از جاده اصلی مرکز ولایت را در یک اعتراض مدنی، کاهگل کردند.
شهروندان بامیان همچنین در اعتراض به عدم توجه دولت به آب آشامدنی این ولایت، به الاغ های خود که از آنها برای تامین آب آشامیدنی استفاده می کنند، مدال دادند.
و همچنین چراغ نفتی بزرگی را در اعتراض به بی توجهی دولت به برق این ولایت، ساختند و آن را در چهار راه مرکزی شهر بامیان نصب کردند.
بعد از آن این چهار راه به "چهار راه هریکین" (چراغ نفتی) مسما شده است.
این اقدامات شهروندان بامیان، این ولایت را در به راه اندازی اعتراض های مدنی، آرام و شایسته پر آوازه ساخته است.
روز ملی اعتراض مدنی
در قطعنامه پایانی معترضان بامیان همچنین آمده است که دولت افغانستان روز ۲۲ حمل/ فروردین را به عنوان روز ملی اعتراضهای مدنی در تقویم کشور ثبت کند. ۲۲ حمل روزی است که بامیانی ها با کاهگل کردن جاده مرکز شهر نخستین اعتراض مدنی و سمبولیک خود را آغاز کردند.
بامیان کوهستانی و برفگیر است، مقام های محلی و موسسه آقا خان سعی کرده با رواج اسکی، صنعت جهانگردی بامیان را احیا کنند
اعتراضها و تظاهرات در افغانستان بارها، خسارات جدی مالی و در مواردی حتی تلفات جانی را نیز در پی داشته است.
کارشناسان معتقدند که اگر روش های مسالمت آمیز شهروندان بامیانی در راه اندازی اعتراض های مدنی، دنبال شود، هم از تلفات و خسارات ناشی از اعتراض های خشن جلو گیری می شود و هم صدای معترضان خوبتر به گوش دولت و جامعه جهانی می رسد.
ولایت پرآوازه اما فراموش شده
ولایت بامیان در مرکز افغانستان از امن ترین مناطق این کشور در یک دهه گذشته بوده اما دولت به بازسازی این ولایت و اعتراض های مدنی پی هم ساکنان توجهی نکرده است.
مجسمه های بزرگ بودا، و طبعیت خوش و آب و هوای بامیان در سالهای قبل از جنگ، این ولایت را به مرکزی برای جذب جهانگردان بدل کرده بود و از این طریق درآمد خوبی را نصیب افغانستان می کرد.
در سالهای جنگ و بویژه بعد از انهدام مجسمه های بزرگ بودا توسط طالبان، حالا صنعت جهانگردی بامیان هم رونق چندانی ندارد.
اگرچه مقام های محلی بامیان و شماری از نهادهای بین المللی از جمله موسسه آقاخان، در چند سال اخیر سعی کرده اند، صنعت جهانگردی بامیان را احیا کنند اما نا امنی راه های منتهی به بامیان توفیق چنین برنامه هایی را به حد اقل رسانده است.
BBC Farsi
Subscribe to:
Posts (Atom)