ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی نےگورنر بلوچستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ہزارہ قبیلے کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ روکنے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔
گورنر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جلد صوبائی حکومت سے بات کریں گے۔ دوسری جانب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت ہزارہ قبیلے کے دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق جمعہ کے روز ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی نے کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگرعلاقوں میں ہزارہ قبیلے کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کوئٹہ میں گورنرہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔
اس دھرنے میں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔ دھرنے میں شریک مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر صوبائی حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔
اس موقعے پر ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور صوبائی حکومت لوگوں کی جان اور مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔
تاہم ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر جان علی چینگیزی نے کہا کہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر شیعہ سنی کو لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک سنی کی ہلاکت کے بعد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا ٹارگٹ کلنگ شروع ہوجاتی ہے۔ بقول ان کے پولیس نے چند افراد گرفتار کیے ہیں لیکن ابھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔
بعد میں ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے ایک وفد نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے ملاقات کی۔
ملاقات میں گورنر بلوچستان نے وفد کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد اس سلسلے میں وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سے بات چیت کریں گے۔ گورنر نے امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ نصیب اللہ بازئی کو کوئٹہ شہر میں سیکورٹی کے انتظامات سخت کرنے کی ہدایت کی۔
گورنر اور وفد کے درمیان مذاکرات جاری تھے کہ نامعلوم افراد نے کوئٹہ کے عبدالستار روڈ پر فائرنگ کرکے گھڑی ساز محمد علی کو ہلاک کر دیا جن کا تعلق بھی ہزارہ قبیلے سے تھا۔ جبکہ کاسی روڈ پر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ شب بھی کوئٹہ شہر میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔
اس طرح گزشتہ دوہفتوں کے دوران کوئٹہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے تحت ہزارہ قبیلے کےآٹھارہ افراد ہلا ک ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک کسی تنظیم نے اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔