Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Tuesday, June 26, 2012

کشتی ڈوبنے سے سترہ تارکینِ وطن ہلاک، نوّے لاپتہ


آخری وقت اشاعت: منگل 26 جون 2012 ,‭ 16:31 GMT 21:31 PST



اطلاعات کے مطابق کشتی کے حادثے میں سترہ کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں

بحرِ ہند میں کرسمس آئی لینڈ کے قریب انڈونیشیا سے آسٹریلیا جانے والی کشتی کے حادثے کے بعد شروع کی گئی امدادی کارروائیاں روک دی گئی ہیں تاہم کشتی پر سوار دو سو سے زائد افراد میں سے نوّے اب بھی لاپتہ ہیں۔

اکیس جون کو حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر آسٹریلیا میں پناہ کے خواہشمند پاکستانیوں سمیت کئی قومیتوں کے افراد سوار تھے اور اس حادثے میں سترہ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

آسٹریلیا میں پاکستانی ہائی کمشنر ملک عبداللہ نے بی بی سی اردو کے کاشف قمر کو فون پر بتایا کہ اگرچہ یہ حادثہ انڈونیشیا کی بحری حدود میں پیش آیا لیکن پیر کی شب ختم ہونے والا سرچ آپریشن زیادہ تر آسٹریلوی حکام ہی نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق اکیس جون کو پیش آنے والے اس حادثے میں سترہ افراد ہلاک ہوئے، ایک سو آٹھ بچا لیے گئے جبکہ نوے کے قریب ابھی بھی لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افغانستان سے ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ہمارے کئی ایسے پاکستانی بھائی ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ کے لیے اپنے آپ کو افغان شہری ظاہر کیا ہوا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک ’ہم سے تین پاکستانیوں کے لواحقین نے رابطے کیے ہیں جن میں جاوید اقبال ولد اقبال حسین کا تعلق پنجاب، نعمت اللہ کا تعلق کرم ایجنسی جبکہ جابر حسین کا تعلق بھی کرم ایجنسی ہی سے بتایا جاتا ہے‘۔

پشاور میں متاثرہ خاندانوں کے ترجمان شاہد کاظمی نے بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ بائیس جون کو تقریباً دو سو چھ افراد ایک کشتی کے ذریعے انڈونشیا سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

ان کے مطابق اس کشتی میں جو دو سو چھ غیر قانونی تارکین وطن سوار تھے ان میں سے ایک سو پچیس کا تعلق کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار اور متعدد کا تعلق بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے بتایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور بچ جانے والے افراد سے انہیں جو معلومات ملی ہیں اس کے مطابق یہ کشتی بحر ہند میں آسٹریلیا کی حدود میں کرسمس جزیرہ کے قریب حادثے کا شکار ہوئی جس میں اطلاعات کے مطابق سترہ افراد ہلاک ہوگئے جبکہ دیگر کو زندہ بچا لیا گیا۔

سیاسی پناہ کی خاطر۔۔۔

"آسٹریلیا کے وزیرِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افغانستان سے ہے تاہم ہمارے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ہمارے کئی ایسے پاکستانی بھائی ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ کے لیے اپنے آپ کو افغان شہری ظاہر کیا ہوا تھا۔"


عبداللہ ملک، پاکستانی ہائی کمشنر

شاہد کاظمی کا کہنا ہے کہ مرنے والے افراد کی لاشیں آسٹریلیا کے مختلف ہسپتالوں میں پڑی ہوئی ہیں تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کتنے پاکستانی ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ اس حادثے میں بچ جانے والے ستّر کے قریب افراد نے کرم ایجنسی میں اپنے عزیزوں کے ساتھ رابطے کیے ہیں تاہم کئی افراد بدستور لاپتہ ہیں جن کے رشتہ دار تشویش میں مبتلا ہیں۔

شاہد کاظمی کا کہنا تھا کہ ان کے ایک رشتہ دار سید مجاہد علی شاہ بھی کشتی میں سوار تھے لیکن ان کا ابھی تک اپنی فیملی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور اس طرح دیگر کئی افراد بھی لاپتہ ہیں جن کے لیے ان کے عزیزو اقارب انتہائی بے چین ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں نے پولیٹیکل انتظامیہ کرم ایجنسی، منتخب نمائندوں اور کچھ بین الاقوامی اداروں سے رابطے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک انہیں اپنے پیاروں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں دی گئی ہیں۔

پارہ چنار کے ایک رہائشی محمود علی نے بتایا کہ ان کے ایک کزن محمد سلمان بھی اس کشتی میں سوار تھے جو بھی لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے مطابق سلمان کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی اور ان کے والدین اور اہلیہ انتہائی پریشان ہیں۔

محمود علی کے مطابق ان کے کچھ دیگر دوست بھی اس کشتی پر سوار تھے تاہم خوش قسمتی سے وہ اس حادثے میں محفوظ رہے۔

زیڑان پارہ چنار کے ایک باشندے فدا حسین کا کہنا ہے کہ ان کے چچا زاد بھائی سید مظہر حسین آسٹریلیا جانے کےلیے چار ماہ قبل انڈونشیا پہنچے تھے لیکن وہ بھی اس کشتی حادثے میں لاپتہ ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ تقریباً دو سال قبل بھی بحر ہند میں کشتی الٹنے سے پچاس کے قریب پاکستانی ہلاک ہوگئے تھے۔ مرنے والے ان پاکستانیوں میں بھی اکثریت کا تعلق کرم ایجنسی سے تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ آسٹریلیا میں پناہ لینے کے قوانین میں نرمی کی وجہ سے کچھ عرصہ سے پاکستان سے تارکین وطن بڑی تعداد میں وہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت کا تعلق ہزارہ اور اہل تشیع کمیونٹی سے بتایا گیا ہے۔

کشتی حامل پناهجویان در نزدیکی اندونزی غرق شد


به روز شده: 04:03 گرينويچ - چهارشنبه 27 ژوئن 2012 - 07 تیر 1391

مقام های استرالیا می گویند یک کشتی به همراه ۱۵۰ مسافر در نزدیکی اندونزی غرق شده است.

مقام های دریایی استرالیا می گویند این کشتی در ساعات اولیه روز چهارشنبه (۷ تیر) پیام های درخواست کمک فرستاده بود.


به گفته این مقام ها دو کشتی باری برای جستجوی مسافران در محل حادثه حضور پیدا کرده اند. دو کشتی نیروی دریایی استرالیا نیز راهی آنجا شده اند.

این دومین بار در روزهای اخیر است که یک کشتی حامل پناهجویان در نزدیکی جزیره کریسمس غرق می شود.

جمعه هفته گذشته نیز یک کشتی دیگر در این محل دچار حادثه شد. گروه های امداد موفق به نجات ۱۱۰ نفر از مسافران شدند و اجساد ۱۷ نفر از آنها پیدا شد.

کشتی که روز جمعه غرق شد، ۲۰۰ نفر مسافر همراه داشت. عملیات جستجو در ساعات پایانی روز شنبه خاتمه یافت.

پناهجویانی که قصد دارند خود را به استرالیا برسانند، معمولا با کشتی از نزدیکی جزیره کرسیمس عبور می کنند.

این کشتی ها اغلب مملو از مسافر هستند و موارد ایمنی در آنها رعایت نمی شود.

در سال های اخیر پناهجویان زیادی از کشورهای افغانستان، سری لانکا و عراق تلاش کردند خود را از طریق اندونزی به استرالیا برسانند.

در دسامبر ۲۰۱۰ حدود ۵۰ نفر جان خود را در سفری مشابه در نزدیکی جزیره کریسمس از دست دادند.

Anxious relatives are trying to contact Australian authorities


BY:DEBBIE GUEST
From:The Australian
June 27, 2012 12:00AM



A 28-year-old Iranian woman being held on Christmas Island says she and other detainees are 'so sad' over the mass drowning. Picture: Daniel Wilkins Source: The Australian


TEENAGE boys desperate to escape persecution in Afghanistan and Pakistan probably made up most of the 90-plus asylum-seekers who drowned off Christmas Island last week, it emerged yesterday, as police moved to identify at least three of the 17 bodies recovered.

Anxious relatives overseas are trying to contact Australian authorities for information on whether their loved ones are alive. Afghan man Raiz Hussain told The Australian from his home in the United Arab Emirates he feared his brother Asad, 25, was on the boat and might be dead.

Mr Hussain said his brother had been in Indonesia for 18 months and wanted to get on a boat to Australia; he had been unable to contact him since the disaster.

"Sometimes he was calling me from Indonesia and told us he wanted to go to Australia, and now his phone is switched off. I'm worried he was on this ship," he said. "When the boat was destroyed, his phone was switched off."


He said he and his brother were from Afghanistan, near the Pakistan border, and the threat from the Taliban made life dangerous and had forced them to leave.

On Monday, Pakistani Muhammad Essa contacted The Australian concerned about his 36-year-old brother Jabir Hussain.

Australian Hazara Federation spokesman Hassan Ghulam said four other families worried about Hazaras from Afghanistan and Pakistan had contacted him through friends in Australia.

He said one youth believed to be missing was 15 or 16 and he had heard through Brisbane's Hazara community that many more teenage boys were on board the boat and unaccounted for.

The boat was carrying about 200 people; only 110 survived.

West Australian police inspector Neville Dockery, who is leading the coronial investigation into the tragedy, said three of the bodies recovered were likely to be able to be visually identified. About 20 officers were continuing with the victim identification process and interviewing survivors yesterday.

News of the tragedy has swept through the island's detention centres. One Iranian woman in the island's family camp told The Australian she and fellow detainees were very upset. "We're so sad, we don't know who they are," said the 28-year-old woman, who did not want to be named.

"We're very worried it might be our friends, we're very worried about them and about everyone who comes this way."

The woman said she had made the journey to Australia from Indonesia with her brother and they had spent three frightening days at sea. "This is very dangerous. We were very scared," she said through the detention fence.

Two of four injured survivors were released from Royal Perth Hospital yesterday after being flown off Christmas Island on Friday and Saturday.

Living in fear



By Letter
Published: June 26, 2012



QUETTA: Syed Ali Mujtaba was killed on his way to donate blood and Aqeel Raza met the same fate while travelling to his university. Their only fault was that they belonged to the Shia Hazara community. As heart-rending as this state of affairs is for the community in Quetta, the criminal silence that has accompanied it is equally agonising. Perhaps, Shia Hazaras are lesser human beings because I really cannot figure out why we are being offloaded from buses and killed in cold blood, with not even women and children being spared. Yet, the media and the people of Pakistan seem to have more important issues to address, including the numerous ‘gates’ that are constantly hogging the limelight.

On June 18, a bus carrying Shia Hazaras was hit by a suicide blast, which killed five students and critically wounded many others. Not a single person involved in this or other attacks has been caught and punished and even if they are caught, they miraculously ‘escape’. Businessmen have abandoned their businesses, students cannot go to universities, colleges and schools, people cannot travel and are trapped in their homes. They have become despondent and are forced to leave the place they love most. Hundreds have drowned while on their way to Australia. They prefer death by drowning than to live every day in constant fear.

I am sure my dear, departed friend, Syed Ali Mujtaba, is in a better place now as he does not have to experience the pain caused by the death of friends and family members anymore. The city he loved has changed a lot. The mountains are not as friendly as they used to be and the valley has become bleak. Blood flows through the streets and the air is filled with sobs and screams. Roaming the city with him on a scooter and the trips to Askari Park and Hana Urak are just memories now. People don’t go on picnics anymore and spend their time remembering their loved ones. Everybody is waiting … waiting for their turn.

Saqlain Ali Changezi

Published in The Express Tribune, June 27th, 2012.

Quetta blast victim dies at CMH

Tuesday, June 26, 2012


QUETTA: Professor Muhammad Hussain of the Balochistan University of Information Technology Management and Sciences (BUITMS) succumbed to his injures at Combined Military Hospital (CMH) on Monday, taking the death toll of Samungali Road blast to six.

It may be mentioned that five students of the BUITMS were killed and 70 others, including policemen, women and children, were injured in the blast near FIA office last Monday.

Hussain’s body was handed over to his relatives for burial after legal formalities. “Three of the injured students lost their eyesight in the blast,” hospital sources said. staff report

Sunday, June 24, 2012

Doctors: 116 More Afghan Students, Mostly Girls, Poisoned

Posted Tuesday, June 19th, 2012 at 3:35 pm

Doctors in central Afghanistan say they are treating at least 116 Afghan students, mostly girls, after they became sick at school.

Health officials in Bamiyan province made the announcement Tuesday. For the past several weeks, hundreds of female students across Afghanistan have complained about noticing strange smells in their schools before becoming dizzy and nauseous and even fainting and vomiting in some cases.

Hospital officials in the province are investigating to see if any of the students show signs of having been poisoned.

No one has died in the incidents, and authorities have not found any traces of poison in the blood samples. Some experts suggest that a phenomenon called “mass hysteria” against the backdrop of Afghanistan's ongoing conflict could be behind the episodes.

But Afghan intelligence officials have accused the Pakistani military spy agency of being involved in the incidents. Pakistan has called the allegations “absurd and senseless.”

Other Afghan authorities have blamed the Taliban, saying they detained a group of people with insurgent ties after an incident in northern Afghanistan. However, Taliban officials have denied any involvement.

The Taliban in the past has been accused of targeting girls' schools with poison and acid attacks in an effort to close them down. Under the Taliban's rule, women were banned from working or going to school outside the home.