یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا کہ نادر علی آسٹریلیا پہنچ جائے، جہاں وہ سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جکارتہ سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہونے والی اُس کی کشتی گزشتہ دو ماہ سے لاپتہ ہے۔
پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا رہائشی نادرعلی شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ کوئٹہ میں روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرنے والا 45 سالہ نادر علی کسی نہ کسی طرح انڈونیشیا پہنچا تھا، جہاں سے وہ بائیس مئی کو جکارتہ کی ایک بندر گاہ سے ایک کشتی کے ذریعے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوا۔
قریب دو ماہ قبل اس کشتی سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، جس میں سوار تھا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ ایسی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں کہ نادر علی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ زندہ مل جائے گا۔ اس کشتی میں مجموعی طور پر 24 افراد سوار تھے، جن میں سے متعدد نادر علی کی ہی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ کشتی چھوٹی ہے اور سمندر کی لہریں تند و تیز لیکن وہ پھر بھی آسٹریلیا جانے کے لیے بضد تھے۔
بنیادی طور پر اس نسل کا تعلق افغاستان سے ہے
نادر علی کے چھوٹے بھائی قادر نائل نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس کو بتایا، ’’ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ اس کا بھائی ڈوب گیا ہے، اس لیے وہ پر اُمید ہے‘‘۔ کوئٹہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ وہ حقیقت کے بر خلاف سوچ رہے ہیں۔ نادر علی نے آسٹریلیا پہنچنے کے لیے دس ہزار ڈالر کی رقم ادا کی تھی۔
شیعہ ہزارہ کمیونٹی ملک سے فرار کیوں ہو رہی ہے؟
پاکستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی کل آبادی کا اندازہ ساڑھے نو لاکھ لگایا جاتا ہے، ان میں سے قریب چھ لاکھ کوئٹہ میں آباد ہیں۔ یہاں اس کمیونٹی کو نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور سزاؤں کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سُنی مسلمان آبادی اور ہزارہ شیعہ برادری کے مابین تنازعے کی ایک تاریخ ہے۔
دنیا بھر میں ہزارہ نسل کے لوگوں کی کل آبادی 3.4 ملین بتائی جاتی ہے۔ یہ تمام لوگ اپنے مخصوص منگول نقوش کی وجہ سے فوری طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس نسل کا تعلق افغاستان سے ہے، جو وہاں موجود سُنی پشتون قبائل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے 120 برس قبل وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو ئی ۔
پاکستان میں اس کمیونٹی کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ اس دوران اس برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد حکومتی سطح پر اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے اس کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا عمل شروع ہو گیا۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بلوچستان سے شیعہ ہزارہ برادری کی ایک بڑٰی تعداد وہاں سے ہجرت پر مجبور ہو چکی ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق نے بتایا کہ ایک دہائی کے دوران ان کی کمیونٹی کے پچیس ہزار افراد پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
شیعہ ہزارہ کمیونٹی پاکستان میں محفوظ نہیں
پاکستان ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹرعلی دایان کہتے ہیں کہ بالخصوص کوئٹہ میں یہ کمیونٹی ہرگز محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کاموں کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ دایان کے بقول یہ ہر گز حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان مخصوص حالات میں اس کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد سیاسی پناہ کی متلاشی ہے۔
یہ تمام لوگ اپنے مخصوص منگول نقوش کی وجہ سے فوری طور پر پہچانے جاتے ہیں
جنوبی ایشیا کی سطح پر کام کرنے والے ایک ادارے SATP کے مطابق رواں برس اکیس مختلف وارداتوں میں اسی کمیونٹی کے 47 افراد مارے جا چکے ہیں۔ نیوزایجنسی اے ایف پی نے ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں برس ’ٹارگٹ ِکلنگ‘ کے واقعات میں مجموعی طور پر 320 شیعہ افراد کی ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں، جن میں سے متعدد ہلاک شدگان کا تعلق شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تھا اور ہلاکتوں کے 100 واقعات صرف بلوچستان میں رونما ہوئے۔
بتایا جاتا ہے کہ شیعہ اور بالخصوص شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف منظم حملوں کے لیے سنی جہادی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے 2011ء میں شیعہ ہزراہ کمیونٹی کو خبردار کیا تھا کہ اب ان کے خلاف جہاد ان کا فرض بن چکا ہے۔ اس جنگجو سنی تنظیم کے بقول وہ ’پاکستان میں سچے اسلام کا علم بلند کر کے ہی آرام سے بیٹھیں گے‘۔
نئی دہلی میں واقع تنازعات کے حل کے لیے کام کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ محقق امبرین آغا پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کی ہلاکتوں کو فرقہ ورانہ کارروائیوں کا نام دیتی ہیں۔ وہ 2010ء سے شیعہ ہزارہ کمیونٹی پر ریسرچ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے کبھی بھی کوئی مؤثر مزاحمت نہیں دکھائی ہے۔ ان کے بقول نسلی بنیادوں پر تشدد کرنے والے جنگجوؤں کے نہ صرف مذہبی جماعتوں سے روابط ہیں بلکہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔
ab / aa (AFP, IPS)