Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Friday, November 23, 2012

Shia massacre in Pakistan, more extensive and focused: Analyst


Pakistani Shia Muslims shout slogans and carry banners as they march during a protest in Islamabad on March 2, 2012, against the killing of Shia travelers in Kohistan area.

Thu Sep 6, 2012 5:53PM GMT

What is now happening to the Shia Muslims in Pakistani regions such as Gilgit, Baltistan, Parachinar, Kurram agency, Quetta and other areas is indeed the continued legacy of violence initiated by Zia ul-Haq and financed by Saudi Wahhabis in an effort to limit the influence of the Shia Muslims in the country.”

The massacre of Shia Muslims in Pakistan, which has grown in quantity and become more focused, is aimed at ‘smashing the pillars of the Pakistani society to smithereens,’ a prominent analyst says.

“That the Shia mass murders have continued over the years with no legal and judiciary source or law enforcement agencies having sought to put an end to these brutalities indicates that these acts are but to be considered as part of a systematic and organized plot prodigiously funded and ingeniously engineered by internal and external forces with the express intention of making the pillars of Pakistani society fall to smithereens, shattering the very fabric of the Shia community and distorting the image of Pakistan and depicting it as a religiously intolerant nation,” Dr. Ismail Salami wrote in an article on the Press TV website. 

Salami said the killings, which had raged over the past few years but have intensified in recent months, “practically amounted to genocide, raising more-than-sectarian alarm bells not only in Pakistan but also across the Muslim world.” 


“The targets which were basically focused on any ordinary person with Shia belief have now come to include those Shia Muslims who belong to the educated and elite class of the Pakistani society,” he added.
According to World Minority Rights Report (2011), Pakistan ranks as the 6th worst country in terms of violence against and persecution of the Shia Muslims and minorities. 

At least six people including a Shia Muslim doctor were killed in separate attacks in different regions of militancy-ravaged Pakistan on Wednesday. 

Last week, senior Shia judge Zulfiqar Naqvi was killed along with his driver and bodyguard in Quetta, the capital of Baluchistan Province 

Shia Doctor Syed Naimatullah s/o Syed Sarwar was also recently assassinated in Quetta in broad daylight at his clinic at Kirni Road, raising the tally of targeted killings since January this year to 419. 

Salami said the history of violence against the Shia community in Pakistan goes back to the time of military dictator Zia ul-Haq who made it “a state policy to fund and arm Wahhabi groups” in the 1980s. 

“It was during those years when he (Zia ul-Haq) technically institutionalized violence by unleashing Sipah-e Sahaba fundamentalists on Shia-populated regions, ushering in a new age of violence and mayhem,” he added. 

Zia ul-Haq, the prominent author said, tasked Pakistan intelligence agency, ISI, with monitoring the activities of Shia organizations all over the country “lest the Shia Muslims would be empowered in the wake of the advent of the Iranian Revolution in 1979.” 

“What is now happening to the Shia Muslims in Pakistani regions such as Gilgit, Baltistan, Parachinar, Kurram agency, Quetta and other areas is indeed the continued legacy of violence initiated by Zia ul-Haq and financed by Saudi Wahhabis in an effort to limit the influence of the Shia Muslims in the country.” 

HMV/SS/IS

ہزارہ – جو کبھی میرے پڑوسی تھے


Friday 23 November 2012


کویٹہ — فائل فوٹو –.

کوئٹہ شہر کے مرکز سے دور ڈیلائٹ سینما سے آگے تغی روڈ پر ہمارا گھر واقع ہے، جہاں ہم آٹھ سالوں تک ہنسی خوشی رہتے رہے۔

انیس سو اڑسٹھ میں شہر چھوڑنے تک کم از کم میں تو یہی سمجھتا تھا۔

1958 سے 1969 تک پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف رہنے والے جنرل محمد موسی کی رہائش گاہ بھی ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھی۔ جنرل موسی ہزارہ تھے اور ہمارے علاقے کے تقریباً تمام ہی رہائشی اس برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس علاقے میں چند ہی ایسے خاندان آباد تھے جو اس برادری سے نہیں تھے اور ہمارا خاندان بھی انہی میں شمار ہوتا تھا۔

ایک چھ سالہ بچے کے طور پر میرا اپنے محلے کے بارے میں پہلا تاثر منفی نوعیت کا تھا۔ میری عمر کے زیادہ تر بچے اپنے خدو خال سے چینی لگتے تھے اور سکول نہیں جاتے تھے۔ مجھے ان کی زبان سمجھنا بھی دشوار لگتا تھا کیونکہ ان کے منہ سے نکلنے والے عجیب و غریب الفاظ میری سمجھ سے بالاتر تھے۔

بظاہر آوارہ، سخت جان اور سڑکوں پر بے مقصد گھومتے پھرتے ان بچوں سے میں خوف زدہ رہتا تھا۔ یہ بچے اور دوسرے لوگ ہزارہ برادری سے تعلق نہ رکھنے والوں کو ہمیشہ پنجابی تصور کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ بچے گروہ کی شکل میں ‘پنجابی پنجابی ‘ کے نعرے لگاتے ہمارا پیچھا بھی کرتے۔ شاید انہوں نے ساٹھ کی دہائی کے برطانوی مفروضے ‘ ٹیڈی بوائز’ کا تزکرہ سن رکھا تھا، اسی لیے ہر شلوار قمیض نہ پہننے والا بچہ ان کے لیے ’ٹیڈی بوائے’ اور ٹیڈی گرل’ تھی۔ حتٰی کہ میری والدہ جب کبھی ساڑھی پہن کر بازار جانے کے لیے گھر سے نکلتیں تو انہیں بھی پیچھے سے ‘ٹیڈی گرل’ کی آوازیں سننا پڑتیں۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے منفی تاثر میں تبدیلی آتی گئی۔ ہزارہ برادری سے میرا پہلا براہ راست واسطہ اس وقت پڑا جب کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک غلط شاٹ کی وجہ سے گیند پڑوس میں ایک خالی پلاٹ میں چلی گئی۔ پلاٹ کے گرد چار دیواری اور ایک دروازہ موجود تھا جس پر ہر وقت تالہ پڑا رہتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلاٹ سے چند فاصلے پر موجود اس کے مالک ‘بوڑھے بابا’ کے گھر پر دستک دی اور ان کے باہر آنے پر با ادب انداز میں اپنا مسئلہ بیان کیا۔

انہوں نے بغیر کوئی ردعمل ظاہر کیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چابی مجھے تھما دی۔ جس کے بعد میں نے پلاٹ سے گیند اٹھانے کے بعد تالا لگا کر چابی انہیں واپس کر دی۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی ہمارے خوبصورت رشتے کا آغاز ہو گیا۔ ہماری گیند بار بار اس پلاٹ میں جاتی بعض اوقات تو دن میں ایک سے زائد مرتبہ بھی ایسا ہو جاتا، لیکن ‘بوڑھے صاحب’ اپنے ماتھے پر بل لائے بغیر ہی ہمیں چابی دے دیتے۔

بوڑھے صاحب نے کئی بکریاں پال رکھی تھیں اور ہماری والدہ ان بکریوں کے لیے مٹر کے چھلکے ایک تھیلی میں جمع کر کے ہمیں بوڑھے صاحب کو دینے کا کہتیں اور صاحب ہمیشہ ہی مسکراتے ہوئے تھیلی لے لیتے۔

ہمارے محلے دار بہت ہی بھلے اور دیکھ بھال کرنے والے تھے۔ ایک مرتبہ سالانہ امتحانات کے دوران ہم اسکول جانے کے لیے تیار ہوئے تو پتا چلا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے، جس پر گھر میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ بالآخر ہمارے والد ‘بوڑھے صاحب’ کے بیٹے محمد علی کے گھر گئے اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ علی فوراً اندر گئے اور اپنی گاڑی کی چابی لے آئے، اسی دوران ‘بوڑھے صاحب’ بھی پہنچ گئے۔ میرے والد نے انہیں بتایا کہ ہمارا اسکول نذدیک ہی واقع ہے اور وہ جلد ہی گاڑی لوٹا دیں گے۔ چہرے پر پریشانی کے تاثرات لیے ہوئے بوڑھے صاحب نے کہا کہ ‘ تم کیوں اس کی پروا کرتا ہے، تم اس کو لندن لے کر جاؤ’۔

مصنف (بایں سے دوسرے) اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ

میرے چھوٹے بہن بھائیوں اور مجھے یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ہمارا گھر ملک کے فوجی سربراہ کی رہائش گاہ کے قریب واقع تھا۔ اس زمانے میں جب کبھی ہزارہ برادری میں شادی ہوتی تو ایک فوجی بینڈ آتا اور دن رات دھنیں بھکیرتا رہتا۔ 

اس بینڈ کا سب سے عمدہ شو اس وقت دیکھنے کو ملا جب جنرل موسٰی کی بیٹی کی شادی فلائیٹ لیفٹیننٹ شربت علی خان چنگیزی سے ہوئی، جنہوں نے بعد ازاں انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ 

ایک بڑی شادی ہونے کی وجہ سے اس کی تقریبات ایک ہفتے تک جاری رہیں۔پہلے تین دن تو نامور بلوچ ریجیمنٹ کے بینڈ نے ہمیں محضوظ کیا۔ تقریبات کا چوتھا روز یادگار ثابت ہوا کیونکہ عین اس وقت جب بلوچ ریجیمنٹ حاظرین کے سامنے دھنیں بجا رہا تھا، اچانک ایک فوجی ٹرک آیا اور اس میں سے پنجاب ریجیمنٹ کا بینڈ نمودار ہوا۔ اس بینڈ نے اس مہارت سے دھنیں بکھیریں اور مارچ کیا کہ پہلے بینڈ کی کارکردگی گہنا کر رہ گئی۔

مجھے یاد ہے کہ پنجاب بینڈ کی سربراہی ایک لمبا چوڑا اور مستند بینڈ ماسٹر کر رہا تھا۔ جلد ہی دونوں بینڈز میں سبقت لے جانا کا ایسا مقابلہ شروع ہوا کہ حاضرین بالخصوص بچے مبہوت ہو کر رہ گئے۔

ہمارے علاقے میں محرم الحرام کے دوران بھی ایک مخصوص اور منفرد سماں ہوتا تھا۔ ہر روز ہی سڑکوں پر چھوٹے بڑے ماتمی جلوس برآمد ہوتے تھے اور چونکہ ہم ان جلوسوں میں عزا داری کرنے والے اکثر شرکاء سے واقف ہوتے تھے لہذا ہمیں ان کی فکر بھی رہتی تھی۔

میں اور میرے چھوٹے بہن بھائی سنی فرقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود جلوسوں کے دوران سینہ کوبی اور نعروں سے اس قدر متاثر ہوتے کہ ہم اپنے گھر کے صحن میں ایک جلوس برآمد کرتے، سینہ کوبی اور دری زبان میں واقعہ کربلا کی ذکر بھی کرتے۔

کوئٹہ میں رہائش کے دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کبھی ماہِ محرم میں دنگے فساد یا پھر لڑائی دیکھی ہو۔

میرے بچپن کا یہ خوبصورت دور اس وقت ختم ہو گیا جب ہمارے والد نے کوئٹہ میں بارہ سال گزارنے کے بعد راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمارا سارا ساز و سامان اپنی ووکس ویگن بیٹل میں بھرا اور میری ماں اور ہم پانچوں بہن بھائی بھی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ روانگی کے وقت سب ہی افسردہ تھے کچھ کی تو آنکھیں بھی نم تھیں۔

اس موقع پر میں ‘بوڑھے صاحب’ کی آنکھوں میں آنسو دکھ سکتا تھا۔ سبھی محلے دار ہمیں گلے لگا کر بلند آوازوں میں خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ گاڑی روانہ ہونے پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب ہی دم بخود کھڑے نظر آئے۔ بالآخر گاڑی کے سڑک پر موڑ کاٹنے کے ساتھ ہی وہ تمات چہرے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

میں دوبارہ کبھی اس شہر نہ جا سکا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ وہاں جانا اب خاصا تکلیف دہ ہو گا کیونکہ میں آئے روز اخبارات میں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑتا رہتا ہوں، اس قتل و غارت کے بعض واقعات تغی روڈ پر بھی پیش آئے جہاں ہمارا گھر تھا۔

شاید انیس سو اڑسٹھ میں جن بچوں کو میں نے الوداع کہا تھا وہ بھی ہدف بننے والوں میں شامل ہوں۔ لیکن میں حمتی طور پر یہ کبھی بھی جان نہیں پاؤں گا۔

میں امید کرتا ہوں کہ وہ سب مادر وطن سمجھے جانے والی اِس مقتل گاہ کے مقابلے میں اب کہیں اچھی جگہ پر ہوں گے۔

Thursday, November 22, 2012

UK minister’s comments about Hazaras spark controversy


Murtaza Ali ShahFriday, November 23, 2012
From Print Edition

LONDON: Parliamentary Under Secretary of State at the Foreign and Commonwealth Office (FCO) reportedly said that Pakistani government officials support the killing of hundreds of Hazara Shias in Quetta, the capital of Balochistan.

Alan Johnson MP, former Home Secretary, during the Labour government, told the International Conference on the Genocide of Hazaras held in the House of Commons, organized by the Hazara Progressive Alliance, Hazara Organization for Peace and Equality and the Friends of Hazara, that Aliastair Burt MP had personally told him in April this year that he had made inquiries and found that “there was absolutely no doubt that there was some kind of official sanction to what was happening in Quetta city, that there were elements in government and security forces, who were sympathetic to the people who were murdering and killing Hazara people.”

The conference in the House of Commons was attended by more than 20 MPs from various parties. They included parliamentarians Robert Buckland, John Denham, Tobias Ellwood, Mr James Gray, Mark Lancaster, John McDonnell, Caroline Nokes, Stephen Pound, Mark Pritchard, Dan Rogerson, Andrew Smith, Iain Stewart, Eric Ollerenshaw OBE, Bob Ainsworth, Jim Cunningham, Chris Huhne, Sue Clayton and Lord Avebury, Luci Woodland, Hazara campaigners Inayat Balkhy Syed, Mokhtar Ali, Akram Gizabi, Ali Hakimi and Javed Hussain.

These comments by the former home secretary are likely to create tensions between the two countries as Pakistan maintains that all communities are under attack from extremists, but human rights group confirm that Hazaras are more vulnerable than any other ethnic group because of their distinct Mongoloid feature.

Alan Johnson, who has become a leading campaigner on behalf of Hazaras, expressed frustration that previous meetings had called “that genocide of Hazaras ended and the perpetrators of this crime were brought to justice”, but there has not been a single conviction, there still hasn’t been a single arrest. As many as 5000,Hazaras have left Quetta city which is an enormous loss to the city, student can no longer attend the university due to fear, Hazaras are under siege of terror.

MPs on this occasion announced the formation of All Parties Parliamentary Group on Hazaras to “address the issues faced by Hazaras in Pakistan to bring an end to the persecution and racial discrimination carried out against Hazaras”. Ian Steward, who was the sponsor of the conference, pledged that he will set up the group and will visit Pakistan with his colleagues.

About 0.6 million Hazaras live in Quetta, Balochistan. Campaigners claimed that over the last 12 years, nearly 800 Hazaras have been killed and over 2,000 injured in 109 recorded terrorist attacks. For majority of these attacks, Lashkar-e-Jangvi, the banned sectarian group, has accepted the responsibility but so far not a single terrorist involved in the killing of Hazaras has been brought to the justice.

MPs said in their speeches that the situation of Hazaras was grave, and they needed protection from terror groups and normal life restored to them. The MPs said the government of Pakistan had failed in its duty to protect its on people and that was a tragedy. They said Hazara professionals, businessmen and labourers were leaving the city as they were under attack.

Inayat Syed told The News: “Some terrorists are occasionally arrested but are then either directly released or helped to escape. They have support within the security forces and these terrorists don’t fear anything and anyone, they are above the law. Security forces further persecute Hazaras for being victims and don’t actively provide any support. Media and the government are not interested in us. We protested outside Pakistan missions as a first step but nothing happened. Now we have gone a step forward and the government of Pakistan needs to blame itself for its failure. He said that the government of Pakistan should be trialled on the cases of crime against humanity.

Ali Hakimi said Hazaras are patriot Pakistanis but the government of Pakistan had shown no interest in their concerns and ministers such as Chief Minister Lashkari Raisani made a joke about their plight. “Our chief minister laughs at us when our relatives are killed and Governor Zulfiqar Ali Magsi quoted his Inspector General of Police (IGP) as saying that high-ups calls for the release of criminals and terrorists who are involved in the killing of Hazars. We have come to the conclusion that provincial government officials are helpless. That’s why we have contacted the international community to help us get protection in Pakistan. We want the world to know that genocide is unfolding before their very eyes and they can help stop it.”

Our Islamabad correspondent adds: When this correspondent contacted a former security official he said there was no truth in assertions that elements in the government and security forces are sympathizing with killers of Hazara Shias in Quetta. He said there are many Shias in the security forces. He said it is an international conspiracy against the country. The enemies of Pakistan have pushed the country in war against Taliban and now they wanted to spoil internal situation and also damage Pakistan’s relations with Iran.

He said everybody including Shia and Sunni ulema are well aware of the drama being staged by Pakistan’s enemies as there is no difference between the followers of two sects in Pakistan.

Genocide of Hazaras in Pakistan International Conference in House of Com...

Aapas ki baat 21 November 2012 (Pakistan's Reaction to Mumbai Attacks) ...