Friday 23 November 2012
کویٹہ — فائل فوٹو –.
کوئٹہ شہر کے مرکز سے دور ڈیلائٹ سینما سے آگے تغی روڈ پر ہمارا گھر واقع ہے، جہاں ہم آٹھ سالوں تک ہنسی خوشی رہتے رہے۔
انیس سو اڑسٹھ میں شہر چھوڑنے تک کم از کم میں تو یہی سمجھتا تھا۔
1958 سے 1969 تک پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف رہنے والے جنرل محمد موسی کی رہائش گاہ بھی ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھی۔ جنرل موسی ہزارہ تھے اور ہمارے علاقے کے تقریباً تمام ہی رہائشی اس برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس علاقے میں چند ہی ایسے خاندان آباد تھے جو اس برادری سے نہیں تھے اور ہمارا خاندان بھی انہی میں شمار ہوتا تھا۔
ایک چھ سالہ بچے کے طور پر میرا اپنے محلے کے بارے میں پہلا تاثر منفی نوعیت کا تھا۔ میری عمر کے زیادہ تر بچے اپنے خدو خال سے چینی لگتے تھے اور سکول نہیں جاتے تھے۔ مجھے ان کی زبان سمجھنا بھی دشوار لگتا تھا کیونکہ ان کے منہ سے نکلنے والے عجیب و غریب الفاظ میری سمجھ سے بالاتر تھے۔
بظاہر آوارہ، سخت جان اور سڑکوں پر بے مقصد گھومتے پھرتے ان بچوں سے میں خوف زدہ رہتا تھا۔ یہ بچے اور دوسرے لوگ ہزارہ برادری سے تعلق نہ رکھنے والوں کو ہمیشہ پنجابی تصور کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ بچے گروہ کی شکل میں ‘پنجابی پنجابی ‘ کے نعرے لگاتے ہمارا پیچھا بھی کرتے۔ شاید انہوں نے ساٹھ کی دہائی کے برطانوی مفروضے ‘ ٹیڈی بوائز’ کا تزکرہ سن رکھا تھا، اسی لیے ہر شلوار قمیض نہ پہننے والا بچہ ان کے لیے ’ٹیڈی بوائے’ اور ٹیڈی گرل’ تھی۔ حتٰی کہ میری والدہ جب کبھی ساڑھی پہن کر بازار جانے کے لیے گھر سے نکلتیں تو انہیں بھی پیچھے سے ‘ٹیڈی گرل’ کی آوازیں سننا پڑتیں۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے منفی تاثر میں تبدیلی آتی گئی۔ ہزارہ برادری سے میرا پہلا براہ راست واسطہ اس وقت پڑا جب کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک غلط شاٹ کی وجہ سے گیند پڑوس میں ایک خالی پلاٹ میں چلی گئی۔ پلاٹ کے گرد چار دیواری اور ایک دروازہ موجود تھا جس پر ہر وقت تالہ پڑا رہتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلاٹ سے چند فاصلے پر موجود اس کے مالک ‘بوڑھے بابا’ کے گھر پر دستک دی اور ان کے باہر آنے پر با ادب انداز میں اپنا مسئلہ بیان کیا۔
انہوں نے بغیر کوئی ردعمل ظاہر کیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چابی مجھے تھما دی۔ جس کے بعد میں نے پلاٹ سے گیند اٹھانے کے بعد تالا لگا کر چابی انہیں واپس کر دی۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی ہمارے خوبصورت رشتے کا آغاز ہو گیا۔ ہماری گیند بار بار اس پلاٹ میں جاتی بعض اوقات تو دن میں ایک سے زائد مرتبہ بھی ایسا ہو جاتا، لیکن ‘بوڑھے صاحب’ اپنے ماتھے پر بل لائے بغیر ہی ہمیں چابی دے دیتے۔
بوڑھے صاحب نے کئی بکریاں پال رکھی تھیں اور ہماری والدہ ان بکریوں کے لیے مٹر کے چھلکے ایک تھیلی میں جمع کر کے ہمیں بوڑھے صاحب کو دینے کا کہتیں اور صاحب ہمیشہ ہی مسکراتے ہوئے تھیلی لے لیتے۔
ہمارے محلے دار بہت ہی بھلے اور دیکھ بھال کرنے والے تھے۔ ایک مرتبہ سالانہ امتحانات کے دوران ہم اسکول جانے کے لیے تیار ہوئے تو پتا چلا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے، جس پر گھر میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ بالآخر ہمارے والد ‘بوڑھے صاحب’ کے بیٹے محمد علی کے گھر گئے اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ علی فوراً اندر گئے اور اپنی گاڑی کی چابی لے آئے، اسی دوران ‘بوڑھے صاحب’ بھی پہنچ گئے۔ میرے والد نے انہیں بتایا کہ ہمارا اسکول نذدیک ہی واقع ہے اور وہ جلد ہی گاڑی لوٹا دیں گے۔ چہرے پر پریشانی کے تاثرات لیے ہوئے بوڑھے صاحب نے کہا کہ ‘ تم کیوں اس کی پروا کرتا ہے، تم اس کو لندن لے کر جاؤ’۔
مصنف (بایں سے دوسرے) اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ
میرے چھوٹے بہن بھائیوں اور مجھے یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ہمارا گھر ملک کے فوجی سربراہ کی رہائش گاہ کے قریب واقع تھا۔ اس زمانے میں جب کبھی ہزارہ برادری میں شادی ہوتی تو ایک فوجی بینڈ آتا اور دن رات دھنیں بھکیرتا رہتا۔
اس بینڈ کا سب سے عمدہ شو اس وقت دیکھنے کو ملا جب جنرل موسٰی کی بیٹی کی شادی فلائیٹ لیفٹیننٹ شربت علی خان چنگیزی سے ہوئی، جنہوں نے بعد ازاں انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔
ایک بڑی شادی ہونے کی وجہ سے اس کی تقریبات ایک ہفتے تک جاری رہیں۔پہلے تین دن تو نامور بلوچ ریجیمنٹ کے بینڈ نے ہمیں محضوظ کیا۔ تقریبات کا چوتھا روز یادگار ثابت ہوا کیونکہ عین اس وقت جب بلوچ ریجیمنٹ حاظرین کے سامنے دھنیں بجا رہا تھا، اچانک ایک فوجی ٹرک آیا اور اس میں سے پنجاب ریجیمنٹ کا بینڈ نمودار ہوا۔ اس بینڈ نے اس مہارت سے دھنیں بکھیریں اور مارچ کیا کہ پہلے بینڈ کی کارکردگی گہنا کر رہ گئی۔
مجھے یاد ہے کہ پنجاب بینڈ کی سربراہی ایک لمبا چوڑا اور مستند بینڈ ماسٹر کر رہا تھا۔ جلد ہی دونوں بینڈز میں سبقت لے جانا کا ایسا مقابلہ شروع ہوا کہ حاضرین بالخصوص بچے مبہوت ہو کر رہ گئے۔
ہمارے علاقے میں محرم الحرام کے دوران بھی ایک مخصوص اور منفرد سماں ہوتا تھا۔ ہر روز ہی سڑکوں پر چھوٹے بڑے ماتمی جلوس برآمد ہوتے تھے اور چونکہ ہم ان جلوسوں میں عزا داری کرنے والے اکثر شرکاء سے واقف ہوتے تھے لہذا ہمیں ان کی فکر بھی رہتی تھی۔
میں اور میرے چھوٹے بہن بھائی سنی فرقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود جلوسوں کے دوران سینہ کوبی اور نعروں سے اس قدر متاثر ہوتے کہ ہم اپنے گھر کے صحن میں ایک جلوس برآمد کرتے، سینہ کوبی اور دری زبان میں واقعہ کربلا کی ذکر بھی کرتے۔
کوئٹہ میں رہائش کے دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کبھی ماہِ محرم میں دنگے فساد یا پھر لڑائی دیکھی ہو۔
میرے بچپن کا یہ خوبصورت دور اس وقت ختم ہو گیا جب ہمارے والد نے کوئٹہ میں بارہ سال گزارنے کے بعد راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمارا سارا ساز و سامان اپنی ووکس ویگن بیٹل میں بھرا اور میری ماں اور ہم پانچوں بہن بھائی بھی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ روانگی کے وقت سب ہی افسردہ تھے کچھ کی تو آنکھیں بھی نم تھیں۔
اس موقع پر میں ‘بوڑھے صاحب’ کی آنکھوں میں آنسو دکھ سکتا تھا۔ سبھی محلے دار ہمیں گلے لگا کر بلند آوازوں میں خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ گاڑی روانہ ہونے پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب ہی دم بخود کھڑے نظر آئے۔ بالآخر گاڑی کے سڑک پر موڑ کاٹنے کے ساتھ ہی وہ تمات چہرے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
میں دوبارہ کبھی اس شہر نہ جا سکا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ وہاں جانا اب خاصا تکلیف دہ ہو گا کیونکہ میں آئے روز اخبارات میں ہزارہ برادری کے لوگوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑتا رہتا ہوں، اس قتل و غارت کے بعض واقعات تغی روڈ پر بھی پیش آئے جہاں ہمارا گھر تھا۔
شاید انیس سو اڑسٹھ میں جن بچوں کو میں نے الوداع کہا تھا وہ بھی ہدف بننے والوں میں شامل ہوں۔ لیکن میں حمتی طور پر یہ کبھی بھی جان نہیں پاؤں گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ وہ سب مادر وطن سمجھے جانے والی اِس مقتل گاہ کے مقابلے میں اب کہیں اچھی جگہ پر ہوں گے۔