احمد ولی مجیب
بی بی سی نیوز، کوئٹہ
آخری وقت اشاعت: پير 17 دسمبر 2012 ,
گزشتہ ساڑھے چار سال میں ہزارہ برادری کے پانچ سو سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے
وادئ کوئٹہ کے مشرقی حصے میں پہاڑ کے دامن میں واقع قبرستان میں ایک نئی قبر پر خواتین اور بچے بلک بلک کر رو رہے تھے۔ یہ چار نومبر کو عسکری پارک کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے اشفاق حسین کی قبر تھی اور وہاں جمع ہونے والے اشفاق حسین کےعزیز و اقارب میں سے کچھ تو اپنا دکھ آنکھوں کی نمی میں سمیٹے ہوئے تھے مگر اکثر کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا اور وہ بین کرتے نظر آئے۔
جب میں نے قبرستان میں موجود اشفاق حسین کے بڑے بھائی آفتاب حسین سے واقعے کی تفصیل جاننے کی کوشش کی تو انہیوں نے کہا کہ میرا ایک اور بھائی الطاف حسین بھی اس واقعے میں شدید زخمی ہوا ہے۔
ایسا نہ ہو کہ آپ کی رپورٹ کی اشاعت سے زخمی بھائی کو اشفاق کی ہلاکت کا علم ہو جائے۔ میرے اصرار پر بھیگی آنکھیں لیے آفتاب نے بس یہ کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم ہمارا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہم تو سب کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ میرے بھائیوں کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی‘۔
یہ دل سوز منظر دیکھ کر ہم قبرستان سے نکلے ہی تھے کہ آفتاب کا پیغام ملا کہ ان کے دوسرے بھائی الطاف حسین بھی چل بسے ہیں۔
یوں مری آباد کے اس تاریخی قبرستان میں ایک نئی قبر کا اضافہ ہوگیا- میں کوئٹہ میں چار دن رہا اور ہر روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہے، نئی قبریں بنتی رہیں اور پتہ نہیں کب تک بنتی رہیں گی۔
ایسا لگتا ہے بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ہزارہ برادی کا مقتل بن چکا ہے۔گزشتہ ساڑھے چار سال میں ہزارہ برادری کے پانچ سو سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے اور تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد ایسے نوجوان بھی ہیں جوحالات سے تنگ آ کریورپ ہجرت کرنے کی کوششوں میں راستے میں جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ہزارہ طلباء سہمے اور خوف زدہ ہیں۔ کشیدہ صورت حال نے بہت سے طالب علموں کو تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا ہے۔
چودہ جون کو جناح ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے میں زخمی ہونے والے طالب علم وقار حسین نے بتایا کہ ’جب ہماری بس کے قریب دھماکہ ہوا تو مجھے لگا کہ اب ہمارے ساتھ بھی مستونگ والا واقعہ پیش آنے والا ہے۔‘(مستونگ میں شعیہ زائرین کو بس سے اتار کر قتل کیا گیا تھا)
"ڈاکٹرز، انجینیئرز، کھلاڑی اور طالب علم جو بھی نظر آتا ہے بس اسے مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کاروباری علاقوں سے ہزارہ برادری کو بے دخل بھی کیا جارہا ہے۔۔۔یہ خالصتاّ مسلکی اور فرقے کی بنیادوں پر قتل عام ہے، اسے نسلی رنگ دینا غلط ہوگا۔"
عبدالخالق ہزارہ
وقار کے مطابق ایسے خوف کے ماحول میں تعلیم جاری رکھنا کیسے ممکن ہے۔ ’ہماری چھوٹی چھوٹی آنکھیں دیکھ کر ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔ وقار جب اس واقعے کی تفصیلات بتارہا تھا اس کی آنکھوں میں خوف صاف نظرآرہا تھا۔
کوئٹہ کی بڑی جامعات میں جہاں پہلے ہزارہ طلبا ءکی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ خال خال نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو ہزارہ برادری کے خلاف تشدد کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا اور دوسری طرف صوبہ میں سرکار کہیں نظر نہیں آتی۔
جب صورتحال پر موقف جاننے کے لیے صوبائی پولیس کے ترجمان حامد شکیل سے رابطہ کیا تو وہ پولیس نفری کی کمی کا رونا روتے نظر آئے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کے کوئٹہ شہر میں پولیس اور ایف سی کی موجودگی میں دہشت گرد کارروائی کر کے اطیمنان سے پیدل کیسے فرار ہو جاتے ہیں؟
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کے مطابق گزشتہ دس برس سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو چُن چُن کے مارا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ’ڈاکٹرز، انجینیئرز، کھلاڑی اور طالب علم جو بھی نظر آتا ہے بس اسے مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کاروباری علاقوں سے ہزارہ برادری کو بے دخل بھی کیا جارہا ہے‘۔
تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں
عبد الخالق کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کونا صرف جان سے مارا جارہا ہے بلکہ ان کا معاشرتی، معاشی اور تعلیمی قتل عام بھی کیا جارہا ہے اور سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کا بدلہ ہزارہ برادری سے لیا جا رہا ہے‘۔
تاثر یہ ہے کہ ہزارہ برادری دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی وار کا شکار ہو رہی ہے۔ عبدالخالق کے مطابق اس جمہوری دور میں تو تشدّد کی حد ہوگئی ہے- ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خالصتاّ مسلکی اور فرقے کی بنیادوں پر قتل عام ہے، اسے نسلی رنگ دینا غلط ہوگا‘۔
وادی کوئٹہ کے مشرقی دامن مری آباد اور مغربی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں رہنے والے ہزاروں کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے اور شہر میں دہائیوں سے آباد ان ہزاروں کو اب ان کے علاقوں تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔
کالعدم لشکر جھنگوی ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے اکثر واقعات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور ہر واقعے کے بعد مزید کارروائیوں کی دھمکی بھی دی جاتی ہے لیکن پنجاب میں بننے والا لشکر جھنگوی بلوچوں میں کیسے مقبول اور موثر
ہوگیا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔