Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Tuesday, January 15, 2013

CCTV Footage of Suicide Attack on Alamdar Road



ٹشو پیپر کے ٹرک

 DateFeb 2011Posts2,844

آج سے چند برس قبل ملک کے ایک نامور سیاستدان کو اپنے بچوں کے لیے کسی ایسی کتاب کی تلاش تھی جو بچوں کی کردار سازی‘ علم اور ذہانت میں اضافہ کر سکے‘ وہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا ’’کوئی ایک ایسی کتاب بتا دیں جس میں تمام خوبیاں ہوں‘‘ میں نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر’’ تاریخ فرشتہ‘‘ لکھ کر ان کے حوالے کر دیا‘ وہ ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح ’’تاریخ فرشتہ‘‘ سے واقف نہیں تھے‘ انھوں نے پوچھا ’’کیا یہ کوئی روحانی یا دینی کتاب ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی نہیں‘ یہ ہندوستان کی مسلم تاریخ کا آئینہ ہے‘ پاکستان کے ہر سیاستدان‘ ہر جرنیل اور ہر بیوروکریٹ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تا کہ یہ تاریخ کی وہ غلطیاں نہ دہرا سکیں جن کا مطالعہ یہ سرزمین سیکڑوں سال سے کر رہی ہے‘‘ وہ تشریف لے گئے‘ چند دن بعد ان کا فون آیا اور وہ دیر تک کتاب کی تعریف کرتے رہے ۔’’تاریخ فرشتہ ‘‘ حقیقتاً تعریف کے قابل ہے‘ یہ کتاب1606ء میں محمد قاسم فرشتہ نام کے ایک سچے اور کھرے مورخ نے لکھی اور کمال کر دیا‘ یہ کتاب ملک کے ہر سیاستدان‘ فوجی افسر‘ بیوروکریٹ اور جج کے سرہانے ہونی چاہیے اور اسے روزانہ اس کا ایک باب پڑھ کر سونا چاہیے تا کہ یہ اگلے دن اٹھے تو یہ وہ غلطیاں نہ کرے جو اس خطے میں پچھلے دو ‘دو ہزار سال سے ہو رہی ہیں اور ہر غلطی کا نتیجہ وہ نکلا جو اس وقت پاکستان میں صاف نظر آ رہا ہے۔’’تاریخ فرشتہ‘‘ کی بارہ ابواب پر مشتمل چار جلدیں ہیں اوراس کا ہر باب انسان کے بارہ طبق روشن کر دیتا ہے ‘ اسے پڑھتے ہوئے تاریخ کے تمام کردار آپ کو اپنے آگے پیچھے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں‘ مثلاً آپ قطب الدین مبارک شاہ خلجی کو لے لیجیے‘ یہ علائوالدین خلجی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بنا‘ اس کی سلطنت دوتہائی ہندوستان پر پھیلی ہوئی تھی‘ یہ مذہباً مسلمان تھا لیکن اس کی حرکات انسانیت کی تمام حدیں کراس کر گئیں‘ یہ مک مکا کا ماہر تھا‘ اس نے ملک کے تمام اہم لوگوں کو خطاب‘ اعزازات‘ جاگیر یں اور وزارتیں دے کر اپنے ساتھ ملا لیا‘ ملک کے تمام حق گو‘ ایماندار اور بااثر لوگوں کو ایک ایک کر کے قتل کرا دیا‘ ملک کا جو بھی شخص اس کو چیلنج کرتا تھا یہ اسے دولت کے ذریعے خرید لیتا تھا یا پھر قتل کرا دیتا تھا‘ یہ معاملہ اس حد تک رہتاتودرست تھا کیونکہ دنیا کے زیادہ تر بادشاہ یہی کرتے ہیں لیکن وہ فطرتاً ایک مکروہ کردار تھا‘ وہ ہم جنس پرست تھا‘ وہ گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک نوجوان ہندو لڑکے پر عاشق ہو گیااور اس نے اس لڑکے کو اپنی ذمے داری میں لے لیا‘ اسے خسرو خان کا خطاب دیا‘ وزیر بنایا اور اس کے ساتھ رہنے لگا‘ بادشاہ سلامت ہرروز خسرو خان کے ساتھ شادی کرتے تھے ‘ یہ ایک دن خسرو خان کا دولہا بنتے ‘ باقاعدہ بارات تیار ہوتی‘ ملک کے تمام عمائدین لباس فاخرہ پہن کر اس بارات میں شامل ہوتے ‘ شامیانے لگتے ‘ باراتیوں کو کھانا کھلایا جاتا ‘ قاضی صاحب آتے اور بادشاہ سلامت کا خسرو خان کے ساتھ نکاح پڑھایا جاتا اور اس کے بعد ڈولی رخصت ہوجاتی‘ اگلے روز خسرو خان دولہا بنتااور بادشاہ سلامت قطب الدین مبارک شاہ خلجی اس کی دولہن بنتے اور اس تقریب میں بھی عمائدین سلطنت باقاعدہ شرکت کرتے تھے‘ اس ’’نکاح‘‘ کا ولیمہ بھی ہوتا تھا‘ بادشاہ سلامت نے ملک میں حسن فروشی اور شراب نوشی کی کھلی اجازت دے دی‘ انھوں نے اپنے محلات کے دروازے سستی عورتوں پر کھول دیے‘ وہ دربار میں سرعام برہنہ بھی ہو جاتے تھے اور درباریوں کو بھی اطاعت کا حکم جاری کر دیتے تھے‘ بادشاہ سلامت دربار میں زنانہ کپڑے اور زیورات پہن کر بھی تشریف لے آتے تھے اور درباری ان کے جمال کی کھل کر تعریف کرتے تھے۔ قطب الدین مبارک شاہ نے ہندوستان پر چار سال‘ چار ماہ حکومت کی‘ اس دوران خسرو خان اس کی کمزوری بن گیا‘ خسرو خان نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا‘ اس نے بادشاہ کے کان بھر بھر کر اس کے تمام وفادار ساتھی قتل کروا دیے‘ عزیز رشتے داروں کو جیلوں میں پھینکوا دیا‘ محل اور دربار میں اپنی برادری کے لوگ لگوا دیے اور پھر ایک دن بادشاہ کو عین اس وقت قتل کر دیا جب وہ زنانہ کپڑے پہن کر خسرو خان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا‘ بادشاہ کا سر محل سے باہر پھینک دیا گیا اور خواجہ سرا خسرو خان ہندوستان کا بادشاہ بن گیا‘ خسرو خان نے اقتدار سنبھالتے ہی محل میں موجود قرآن مجید جمع کروائے اور (نعوذباللہ) انھیں دربار کی کرسیاں بنا دیا‘ مسلمان عمائدین کو ان پر بیٹھنے کا حکم دیا اور یہ لوگ ان کرسیوں پر بیٹھتے بھی رہے‘ نیا بادشاہ دربار میں درباریوں پر پیشاب بھی کر دیتا تھا‘ یہ حرکات اس قدر بڑھ گئیں کہ لوگوں نے خدا اور رسول ؐ کا واسطہ دے کر دیپالپور کے امیر غازی ملک کو دلی آنے کی دعوت دی‘ غازی ملک نے دلی فتح کی‘ خسروخان کو قتل کیا اور سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے حکومت شروع کر دی۔قطب الدین مبارک شاہ اور خسرو خان محمد قاسم فرشتہ کی 1300 صفحات کی کتاب کے دو کردار تھے جب کہ اس کتاب میں سیکڑوں اچھے برے کردار موجود ہیں‘ قاسم فرشتہ کا دعویٰ ہے ہندوستان میں جب بھی کوئی اچھا حکمران آیا‘ اس خطے نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی لیکن جونہی قطب الدین مبارک شاہ جیسا کوئی کردار تخت نشین ہوا‘ یہ ملک تباہی اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا‘ آج اگر محمد قاسم فرشتہ زندہ ہوتا اور اس کی تاریخ نویسی جاری ہوتی تو یہ یقیناً آج کے پاکستان کے چند کردار بھی اپنی کتاب میں شامل کر لیتا اور ان کرداروں میں یقیناًنواب اسلم رئیسانی جیسا جید سیاستدان بھی شامل ہوتا‘ پاکستان نے تاریخ میں ایک سے ایک بڑا نمونہ بھگتا ہے لیکن نواب اسلم رئیسانی مدظلہ العالی کا کوئی جواب نہیں‘نواب صاحب 9اپریل 2008ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور اس کے بعد انھوں نے اسلام آباد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا‘ یہ مہینے میں اوسطاً 22 دن اسلام آباد میں قیام کرتے‘ سڑک پر ہیوی موٹر بائیک چلاتے‘ اسپورٹس کار میں جلوے دکھاتے‘ ریمورٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے اور ٹیلی ویژن پر حیران کن بلکہ بعض اوقات شرمناک بیانات جاری کرتے مثلاً’’ ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہویا اصلی‘ کرسی کرسی ہوتی ہے لکڑی کی ہو یا پلاسٹک کی ‘ جس میں ہمت ہے مجھے ہٹائے 10روپے انعام دوں گا‘ جس کو بخار ہوا اسے اسپرین دیں گے ‘ اسپرین سے آرام نہ ہوا تو انجکشن لگا لیں گے‘ جب سردی ہو گی تو میں آپ کو دھوپ میں کھڑا کر دوں گا اور مئی جون میں چھائوں میں کھڑا کر دوں گا‘‘وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام بیانات ان کی ذہانت اور دماغی زرخیزی کا ادبی نمونہ ہیں مگر کوئٹہ میں 10جنوری کو 120لوگوں کی ہلاکت کے بعد ان کے بیانات بین الاقوامی ادب تک پہنچ گئے ‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ہزاروں سوگوار 86 میتیں سڑک پر رکھ کر بیٹھ گئے‘ یہ لوگ بلوچستان حکومت کی برطرفی اور کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن نواب صاحب اس وقت لندن میں تشریف رکھتے ہیں‘ میڈیا نے ان سے رابطہ کیا تو نواب صاحب کے خیالات نے ہر دکھی دل کو رلا دیا‘ نواب صاحب نے پہلے بیان جاری کیا ’’میں کوئٹہ کے سوگواروں کے لیے ٹشو پیپرز کے دو ٹرک بھجوا رہا ہوں‘ یہ ان سے اپنے آنسو پونچھ لیں ‘‘اور اس کے بعد فرمایا ’’میں نے لندن میں ہوٹل کا کرایہ ادا کر دیا ہے‘ میں ہوٹل چھوڑ کر کوئٹہ کیسے آ جائوں‘‘۔ یہ بیانات خسرو خان اور قطب الدین مبارک شاہ کی حرکتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ‘ آپ بے حسی ملاحظہ کیجیے‘ لوگ 86لاشیں سڑک پر رکھ کر شدید سردی اور بارش میں بیٹھے تھے‘ ملک بھر میں دھرنے ہو رہے تھے‘ لوگ ملک کے 112 شہروں میں بچوں کو ساتھ لے کر سڑکوں پر بیٹھے تھے اور وزیراعلیٰ بلوچستان فرما رہے ہیں میں نے ہوٹل کے کمرے کا کرایہ دے دیا ہے‘ میں کیسے واپس آ جائوں یا میں دو ٹرک ٹشو پیپرز بھجوا رہا ہوں۔ دنیا میں اس سے زیادہ ستم گری اور سنگدلی کیا ہو سکتی ہے‘ آپ وفاقی حکومت کا رویہ دیکھ لیجیے ‘ صدر آصف علی زرداری تین ہفتوں سے کراچی میں بیٹھے ہیں‘ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے صاحبزادے کی شادی کی تقریبات میں مصروف ہیں اور کابینہ کراچی‘ لاہور اور آبائی حلقوں کے درمیان گم ہو چکی ہے‘ وزیراعظم تیسرے دن ایکٹو ہوئے اور انھوں نے آئین کی دفعہ 234 کے تحت بلوچستان حکومت ختم کرکے وہاں گورنر راج لگا دیا اور یہ وہ وزیراعظم ہیں جنہوںنے سپریم کورٹ کے 31 اکتوبر 2012ء کے فیصلے بلوچستان حکومت اپنا حق حکمرانی کھو چکی ہے اس کی شدید مذمت بھی کی تھی اور اس فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی قرار دیاتھا لیکن 86 لاشوں کے بعد حکومت نے نہ صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین قبول کر لی بلکہ وہ کام بھی کیا جس کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی تھی۔اگریہ جمہوریت ہے‘ اگر یہ عوامی مینڈیٹ ہے اور اگر یہ وہ سسٹم ہے جس کے تحفظ کا دعویٰ صدر‘ وزیراعظم اور میاں نواز شریف کر رہے ہیں تو پھر عوام کو اسے ایک لمحے میں مسترد کر دینا چاہیے‘ اگر بیلٹ باکس سے اسلم رئیسانی جیسے لوگوں نے نکلنا ہے اور اگر حکومت نے پانچ برس بعد لاشیں اٹھانے کے لیے گورنر راج لگانا ہے تو پھر ہم جمہوریت کے اہل ہی نہیں ہیںپھر علامہ طاہر القادی سمیت اس ملک کا ہر وہ شخص سچا ہے جو چوراہوں کو پھانسی گھاٹ بنانا چاہتا ہے اور سڑکوں کو پارلیمنٹ۔مجھے خطرہ ہے اگر علامہ طاہر القادری ناکام ہو گئے تو اس کے بعد وہ لوگ مارچ کریں گے جو گولی پہلے ماریں گے اور مقدمہ بعد میں سنیں گے کیونکہ ہمارے حکمران ٹشو پیپرز کے ٹرک ہیں ‘یہ سب اسلم رئیسانی ہیںاور یہ ملک اب اسلم رئیسانیوں کے ذریعے نہیں چل سکے گا۔


Four days on, 87 Hazaras finally find resting place

By Our Correspondents
Published: January 15, 2013


Members of the Hazara community shout slogans during the Quetta blasts’ victims’ funeral ceremony. PHOTO: AFP
QUETTA:

The bodies of 87 slain Hazaras, which had been accompanied by thousands of mourners from the Shia Hazara community on Alamdar Road for a full four days, were finally laid to rest on Monday.

Some 17 bodies, unidentifiable due to the impact of the blast, wait for their families to recognise and bury them.

The Hazara Town graveyard, Barory, and Ganje Shuhada graveyard, Alamdar Road, receivedthe victims of the January 10 bomb blasts that claimed more than a 100 lives, only after the community’s elders announced that the protest was officially over. Their decision followed Prime Minister Raja Pervaiz Ashraf’s announcement that some of the community’s demands would be met, including the dismissal of the provincial assembly and the imposition of governor rule.

The struggle for the community, however, is far from over – this may very well just be the beginning.

“We trust the decision of the elders of our tribe. However, we are wary of trusting the government’s promises. It may be just a pacifier … We have some degree of satisfaction over governor rule in the province, and (the fact that) false cases against our Hazara brothers in police stations and courts (are) being withdrawn, along with release of those Hazaras who are in prisons,” said a Hazara community member who returned home for the first time since the blast, while talking to The Express Tribune. Yet, he shared, his community was not happy with how “giving more power to Frontier Corps (FC) is being dealt with. It reeks of deception. Only time will tell”.

Another member of the community pointed out that most who had lost their lives on that fateful day were young boys volunteering to save those who were injured in the initial explosion. “The first blast had fewer casualties. That was actually bait to draw as many men as possible to the site, so that a maximum number of men lose their lives in the attack,” he said.

The man told about how he lost his 23-year-old cousin who was about to get married soon. “He called us after the second blast saying ‘I have lost one arm and one leg, and I am bleeding too much. Come soon. There are others here who are in worse condition than me’. By the time we covered the 45 minute distance from Barory to Alamdar road, he was gone. We have been through hell. We are still living it.”

Sitting out in the freezing cold for days has left the Hazara community physically exhausted. There has been a spread of respiratory and chest infections, as well as joint aches and pains. Emotionally too, the deaths and protests have taken their toll. Yet, their resolve is unwavering.

“We are not going to give up the struggle. But from the government and the people of Pakistan, all we can request is, ‘bring the culprits to task’. You all know who they are. And if you cannot do that, at least stop supporting them,” said a female Hazara activist, adding that death does not scare her any more.

What has driven the besieged minority is a wave of support which brought several parts of the country to a standstill over the last few days, leaving a fearful government resorting to jamming mobile phone networks once again.

“It is heartening to see how people all over Pakistan and in fact all over the world have woken up to the cause of Hazaras. The turnout of women at the sit-in is no small feat, considering how protective and conservative Hazaras and generally the people of the province are when it comes to their women,” a Hazara activist said. The campaigner added, “It was excruciatingly painful to make our dead wait to be buried. But I think the sacrifice of those who died will not have gone in vain.”

A spokesperson on behalf of Shia Hazara activists gave this statement of gratitude: “To all our honourable brothers and sisters who joined hands with us in these painful moments – We are thankful to those mothers the world over who have trained their children to support the oppressed when in pain …”

It went on to add: “We pray to Allah that you all never have to suffer how we have suffered. Rest assured, if ever a time comes when God forbid you all need support, the Shia Hazaras will be by your side, and will not hesitate from giving any sacrifice to safeguard you. May God be with you. From the Shia Hazara community.”

Demand for army

Majlis Wahdatul Muslimeen Central Secretary Raja Nasir Abbas demanded of Balochistan Governor Zulfiqar Magsi to call in the army for security in Quetta.

FC and police personnel, along with volunteers of the Hazara Community, were on alert as the burials took place.

Later, addressing a joint press conference, Abbas along with leader of Yakjehti Council Qayyum Nazar Changezi and the head of the Hazara tribe Sardar Saadat Ali Hazara expressed gratitude towards Prime Minister Raja Pervaiz Ashraf. At the same time, they demanded that Quetta be handed over to the army, since the FC had not proved effective in the past.

The speakers said they shared equally the grief of the journalists martyred in the bomb blast.

Published in The Express Tribune, January 15th, 2013.

Express Tribune 

Quetta tragedy shakes nation

Tuesday, January 15, 2013 - THE prolonged yet heart-rending sit-in by members of Hazara community in Quetta and protests across the country and in some foreign countries finally forced the Government to act in a manner that is likely to help overcome some of the problems of Balochistan. After his discussions with allies and talks with representatives of protestors, Prime Minister Raja Pervez Ashraf announced imposition of Governor’s Rule in the province and the decision served as a solace to aggrieved families.

The move is being appreciated by different circles but the fact remains that demand for the Governor’s Rule was there for about one year yet the authorities concerned did not pay any heed to the legitimate and logical demand. It is unfortunate that decision came amidst killing of over one hundred innocent souls at a time and strong protests by each and every segment of the society. The tragedy, in fact, shook the entire nation as families, relatives and members of Hazara community cried and braved harsh weather conditions to convey their injured sentiments to the people and decision-makers. Target killings including those of Hazara community had been there for quite some time but the latest incident was heart-breaking as about one hundred people became victim of the terrorist attacks. Therefore, anger of the community as well as people of Pakistan was quite understandable. It is satisfying that almost all political parties, leaders of public opinion and religious leaders representing different shades of opinion condemned the tragedywith one voice and demanded stern action to restore normalcy in Balochistan. The resilience anddetermination of families of the victims, who braved extreme cold and waited for five days to bury their dead, proved to be a turning point. However, mere imposition of the Governor’s Rule and dismissal of an inefficient, inactive and corrupt administration would not help until and unless the Governor moves firmly, with support of all law enforcing agencies including Army, to eliminate terrorists and law-breakers. There should be zero tolerance for those who take lives of other people and are engaging in acts aimed at destabilizing the province and the country. 

Four days long Quetta sit-in ends

January 14, 2013 -



QUETTA: Yakjeehti Council leader Qayyum Chengezi Hazara has announced to break their four days long sit-in here following the imposition of Governor’s rule in Balochsitan.

Earlier, former minister Jan Ali Changezi had announced to end sit-in at 10 AM on Monday as President Asif Ali Zardari signed the summary regarding imposition of Governor's rule in Balochistan.

There was discord in the protestors over breaking the sit-in until the steps announced by Prime Minister Raja Pervez Ashraf were notified.

After the announcement to end sit-in in Quetta, protest demonstrations across the country are also being concluded.