Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Saturday, March 9, 2013

Shiite leader: Sectarian attacks are 'genocide'

Posted: Mar 08, 2013 10:40 PM PSTUpdated: Mar 08, 2013 10:40 PM PST


(AP Photo/Arshad Butt, File). FILE - On this Saturday, Jan. 12, 2013 file photo, Pakistani Shiite Muslims sit next to the bodies of their relatives awaiting burial, who were killed in Thursday's deadly bombings, during a protest in Quetta, Pakistan.

By KATHY GANNON
Associated Press

QUETTA, Pakistan (AP) - Pakistan's minority Shiite Muslims have started using the word "genocide" to describe a violent spike in attacks against them by a militant Sunni group with suspected links to the country's security agencies and a mainstream political party that governs the largest province.

Lashkar-e-Jhangvi, a group of radical Sunni Muslims, who revile Shiites as heretics, has claimed responsibility for dozens of attacks throughout Pakistan. Linked to al-Qaida, it has been declared a foreign terrorist organization by the U.S., yet it operates with relative ease in Pakistan's populous Punjab province, where Lashkar-e-Jhangvi and several other violent jihadi groups are based.

The violence against Shiites has ignited a national debate - and political arguments - about a burgeoning militancy in Pakistan. The latest attack was a massive bombing earlier this month that ripped apart a Shiite neighborhood in Pakistan's largest city of Karachi, killing 48 people, many of them as they left a mosque after saying their evening prayers. So far this year nearly 300 Shiites have been killed in devastating bombings, target killings and executions.

The unrelenting attacks also have focused the nation's attention on freedoms that Pakistani politicians give extremists groups, staggering corruption within the police and prison systems and the murky and protracted relationship between militant groups and Pakistan's military and intelligence agencies.

"The government doesn't have the will to go after them and the security agencies are littered with sympathizers who give them space to operate," Hazara Democratic Party chief Abdul Khaliq Hazara, told The Associated Press in a recent interview in Quetta, the capital of Baluchistan where some of the most ferocious anti-Shiite attacks have occurred.

He labeled the killings as the "genocide of Hazaras," whom are mostly Shiites and easily identified by their Central Asian facial features.

"I have a firm belief that our security agencies have not yet decided to end all extremists groups," said Hazara. "They still want those (militants) that they think they can control and will need either in India or Afghanistan," he said referring to allegations that Pakistan uses militants as proxies against hostile India to the east and Afghanistan to the west.

The army has a history of supporting militant Islamists using them as proxies to fight in Kashmir, a region divided between Pakistan and India and claimed by both in its entirety. It is repeatedly criticized by the United States and Afghanistan for not doing enough to deny Afghan insurgents sanctuary in the tribal regions that border Afghanistan. Angry at the criticism, Pakistani army officials say they have lost more than 4,000 soldiers - more than NATO and the U.S. combined - fighting militants.

Yet, police officials in Baluchistan and the capital, Islamabad, told the AP that Pakistan's intelligence agency had ordered them to release militant leaders who had been arrested. The militants were not necessarily affiliated with Lashkar-e-Jhangvi, said the officials, who asked not to be identified because they feared losing their jobs.

Even the judiciary has queried Pakistan's security agencies for information about their alleged ties to militants.....Continue Reading.... 

مجھ کو یقین ہے


Saturday 9 March 2013


فائل فوٹو –.

بخدمت جناب اسلامی جمہوریہ پاکستان،

جناب عالی،

مودبانہ گزارش ہے کہ میں اُن عام پاکستانیوں میں سے ایک ہوں جو پاکستان کے ہر گوشے میں آباد ہے۔ میں خود کوئٹہ کا باسی ہوں لہٰذا کوئٹہ کے حوالے سے بات کروں گا۔

اپنا صحیح تعارف کرانے کے لئے میرے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ میں وہ ہوں جسے آئے دن مولی گاجر کی طرح کاٹ کے رکھ دیا جاتا ہے۔ مجھے روز قتل کیا جاتا ہے۔ کسی کو ڈرانا ہو تو چھری میرے گلے پر پھیری جاتی ہے اور کسی کو خوش کرنا ہو تو بھی میرا ہی لہو بہایا جاتا ہے۔

آپکے دوست اسلامی ملکوں کے درمیان جاری سرد جنگ کا شکار بھی میں ہی ہوں اور ٹکڑوں میں بٹی سرد لاشوں کو جمع کرنے کی ذمہ داری بھی میرے ہی سپرد ہے۔

الیکشن ملتوی کرنے ہوں تو میری لاش گرائی جاتی ہے اور بلوچستان کو بچانا ہو تو بھی مجھے کاٹ کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری بے کار زندگی کسی اچھے مقصد کے لئے قربان ہو رہی ہے۔ اگر میری قربانی دے کرکچھ ”دوست“ اسلامی ملکوں کی خوشنودی حاصل کرکے وطن عزیز کی ترقی کے لئے خیرات حاصل کی جاسکتی ہے یاکچھ بلوچ سرپھروں (سرمچاروں) کو ڈرا دھمکا کے پاکستان کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو ”صد بسم اللہ“.

مجھے تو سو نقابوں کے پیچھے چھپے آپ کے منظور نظر فرشتوں کے ان لشکروں سے بھی کوئی گلہ نہیں جو ان عظیم مقاصد کی تکمیل کی خاطر دن رات مصروف عمل ہیں۔ آخر وہ بھی تو دین اور ملک کی ہی خدمت کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان فرشتوں کو ہرگز اس بات میں دلچسپی نہیں کہ ہمیں ڈرا دھمکا کے بھگانے اور پاکستان کو ہمارے وجود سے پاک کرنے کی کوشش کریں بلکہ اس کے بر عکس ان کے جہاد کا مقصد یہی ہے کہ ہم جیسے پاکستان دشمن لوگ ملک کی قدرو قیمت سے واقف ہوں۔

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ وہ اپنے اس مقدس مشن میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری قبروں کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس سرزمین سے ہمارا رشتہ بھی اتنا ہی مضبوط ہوا ہے جو ہم جیسے ملک دشمن عناصر کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

مجھے اس بات کا بھی افسوس نہیں کہ قتل کرنے والے تو اپنے ان نیک کاموں کی ذمہ داری قبول کرنے سے زرا بھی نہیں ہچکچاتے جبکہ عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کوئی بھی قبول نہیں کرتا.

میں اس درخواست کے زریعے آپکا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے اداروں نے ہمارے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے جتنے دعوے کئے اور جتنے بیانات دئے اس سے ہمارا خون سیروں بڑھ چکا ہے۔ اب کیا یہی کم ہے کہ ہمارے قتل عام کے سوگ میں آپ کا جھنڈا تین روز تک سرنگوں رہا؟

میں نے ہمیشہ آپکے اداروں پہ اعتبار کیا ہے۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ کی اپنی بھی بہت ساری ذمہ داریاں اور مجبوریاں ہیں،کیوں کہ آپ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا آپ نے پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ملک افغانستان کی سلامتی کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے اور چونکہ پاکستان ہی تو دنیا میں اسلام کا واحد قلعہ ہے اس لئے اسلام کا بھی بول بالا رکھنا آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ مجھے اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔

مجھے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف ہیومن رائٹس کمیشن اورہیومن رائٹس واچ وغیرہ وغیرہ کی ان رپورٹوں پر کبھی بھی اعتبار نہیں آیا جن میں آپ کے مقدس اداروں پر اُنگلی اُٹھائی گئی تھی اور ان کو ہمارے قتل عام میں برابر کا شریک ٹہرایا گیا تھا۔
مجھےاس بات کایقین ہے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں کام کرنے والے یہ نام نہاد ادارے دراصل غیر ملکی ایجنٹ ہیں اور یہودی لابی کے لئے کام کرتے ہیں۔

اس کے بر عکس اگر مجھے اعتبار ہے تو اپنی فوج کے ترجمان پر جنکا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں وطن دشمنوں کی آلہ کار ہیں اور ان کے بیانات سے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے (اُنہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا ہوا بھی ایسے ہی).

میں نے پاک افواج کے سپہ سالار کے اس بیان کو بھی کئی باراپنی آنکھوں سے چوما جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کا تعلق صرف دو مدرسوں سے ہے جن کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں بشرطیکہ حکومت ہمیں ایسا کرنے کو کہے۔

مجھے تو ان بین الاقوامی زرائع ابلاغ کی خبروں سے بھی سازش کی بو آتی ہے جو آئے دن ہمارے قتل عام کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

میں کچھ بدخواہوں کی ان باتوں کو بھی سراسر بکواس سمجھتا ہوں جن کے مطابق کوئٹہ کے کسی عام پولیس سپاہی کو بھی دہشت گردوں کے نام، خاندانی پس منظر، ٹھکانوں، مختلف اداروں سے ان کی وابستگی حتیٰ کہ ان کے استعمال میں موجود موٹرسائکلوں اور گاڑیوں تک کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہے۔

گورنر بلوچستان کی نیک نیتی اور خلوص پر مبنی اس اعلان پر بھی مجھے یقین کامل ہے جس کے مطابق ان دہشت گردوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے والے کو ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ اطلاع دینے والے کا نام اُتنا ہی صیغہ راز میں رکھا جائے گا جتنا دہشت گردوں کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔

مجھے اس بات کا بھی مکمل احساس ہے کہ اسلام خصوصاَ پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں سازشیں اپنی عروج پر ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان تو ہاتھ دھو کے اس مملکت خداداد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ بات کسی طرح ہضم ہی نہیں ہورہی کہ غربت، بے روز گاری،تعلیم کی کم شرح، پسماندگی اور بد امنی کے باوجود ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت کیسے بنا؟

درحقیقت ان کو ہمارے ایمان کی حرارت اور ہمارے جوش اور جذبے کا اندازہ ہی نہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ ہم بھوک سے مر تو سکتے ہیں لیکن دشمن کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے کہ وہ ہماری طرف میلی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔

یہاں میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دشمن سے میری مراد وہ لوگ ہر گز نہیں جو آئے دن بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے زریعے ”گناہ کاروں“ کو واصل جہنم کرتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے ہی تو بچے ہیں ہم ہی نے انہیں پال پوس کے بڑا کیا ہے اور وہ ہماری ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی بچوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو در گزر کرنا بڑوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

لیکن کیوں کہ میں ایک اچھا پاکستانی اور سچا مسلمان ہوں اور ملک اور قوم کے مفادات کے لئے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں، اس لئے میں تہہ دل سے آپ کا اور آپکے اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمارے تحفظ کی خاطر بر وقت اقدامات اُٹھائے۔

آپ کا یہ احسان بھی میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ تیرہ سالوں کے قتل عام، تیرہ سو زندگیوں کی قربانی اور ہزاروں زخمیوں، معزوروں، یتیموں اور بیواؤں کی آہ و بکاہ کا آپ نے ”بروقت“ نوٹس لیتے ہوئے کچھ دہشت گرد پھڑکا کے اور چند مشکوک افراد گرفتار کرکے ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ہمیں مزیدپریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں.

اب مجھے اس بات کا مکمل اطمینان ہو چکا ہے کہ ہمارے محافظ ابھی زندہ ہیں اور ہمارا مزید کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔

جناب عالی، کچھ دنوں سے آپ کے عقلمند اداروں نے ہمارے ارد گردخوشنما دیواریں کھڑی کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے میرے اندر تحفظ کا کچھ زیادہ ہی احساس پیدا کردیا ہے۔ ان پکی دیواروں کو میں کوئٹہ کی خوبصورتی میں ایک اچھا اضافہ تصور کرتا ہوں۔ ان اونچی دیواروں کی تعمیر کے بعد ہمارے ہمسایوں نے بھی یقینا سکھ کا سانس لیا ہوگا جو پچھلی ایک دہائی سے ہماری آہیں اور سسکیاں سن سن کے بیزار آچکے تھے۔ اب انکو سکون کی نیند سونے کے لئے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسنے کی ضرورت باقی نہی رہی۔

آپ کی اس مہربانی کی بدولت اب ہمارے بچے بھی پڑوس کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکیں گے۔ نہ کوئی ”ہائیڈ اینڈ سیک“ ہوگا نہ کوئی شور شرابہ۔

اب مجھے اپنے ہمسایوں کی خوشی اور غم میں بھی شرکت کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اب وہ میرے ہمسائے ہی نہیں رہے۔ ہمارے درمیان آپ نے یہ اونچی اور پختہ دیواریں کھڑی کرکے ہمیں ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رکھنے کا جو مناسب اور شرعی طریقہ نکالا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

آپ کے حکمرانوں کی طرح مجھے بھی اس بات کا پختہ یقین ہے کہ لاکھوں لوگوں کو ایک قلعے میں بند کر کے انہیں تحفظ فراہم کرنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ کچھ سو دہشت گردوں کو گرفتار کرکے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ویسے تو پاکستان شروع ہی سے اسلام کا قلعہ تھا لیکن تعریف کرنی چاہئے آپ کے پالیسی سازوں کی جن کے مشوروں اور اقدامات کی بدولت آج اس قلعے میں اتنے زیادہ قلعوں کا اضافہ ہوچکا ہے کہ اب پاکستان کو بجا طور پر قلعوں کا پاکستان کہا جا سکتا ہے۔

کسی جگہ کو ریڈزون قرار دے کر کنٹینرز کی مدد سے قلعے میں تبدیل کردیا گیا ہے تو کسی مقام کو حساس قرار دے کر اور ارد گرد اونچی دیواریں اور بُرج تعمیر کرکے مکینوں کے لئے محفوظ بنا دیا گیاہے۔

حکمرانوں کی بات تو میں کرتا ہی نہیں کہ ان کو قلعوں میں رہنے کی عادت ہے۔ میں تو اپنے جیسے عام آدمی کی بات کر رہا ہوں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خاکم بہ دہن میں خواص اور عوام کی حفاظت کی خاطر اُٹھائے گئے ان خصوصی اقدامات کے خلاف ہوں یا پھر کچھ دیگر سازشی عناصر کی طرح انہیں عوام کے مختلف طبقات کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا باعث سمجھتا ہوں، بلکہ میں تو اس درخواست کے زریعے انتہائی عاجزی کے ساتھ آپ کے محب وطن اداروں کی حب الوطنی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی قابلیت اور خصوصاَ آپکے جاذب نظر اور انتہائی بردبار وزیر داخلہ کی بصیرت، عوام سے انکی محبت اور سچی پیشین گوئیوں کی ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ ان سب کو اس بات کی سختی سے تاکید کریں اور انہیں اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اپنی ان کامیاب پالیسیوں کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں اور اسی طرح بروقت اور صحیح فیصلے کرتے رہیں تاکہ بانی پاکستان اور شاعر مشرق کے خوابوں کی حقیقی تعبیر حاصل کی جاسکے اور پاکستان کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکے۔

مجھے اُمید ہے کہ آپ میری درخواست پر ہمدردانہ غورکرکے مجھے شکریہ کا موقع دیں گے۔

فقظ آپ کا تابعدار،

ایک پاکستانی (بہ قلم خود)،

پتہ: علمدار روڑکوئٹہ پاکستان

Wednesday, March 6, 2013

Debate in NA over Karachi, Quetta massacres

From the Newspaper | Raja Asghar



Interior Minister Rehman Malik.—File Photo

ISLAMABAD: As Interior Minister Rehman Malik promised to come up with a detailed ‘fact sheet’ on Wednesday, fingers were pointed at the Punjab government in the National Assembly on Tuesday over its perceived patronage of banned groups responsible for terrorist massacres like those of Karachi and Quetta.

During a debate on Sunday’s massive bomb attack at a Shia neighbourhood in Karachi that killed 48 people, there were demands for explanations by law-enforcement agencies at a joint session of parliament, over which both the government and opposition had agreed after a second similar attack in Quetta last month, but it has not been called yet.

Mr Malik, in a preliminary response to some remarks about him by opposition speakers at the start of the debate, said he would speak in detail and “place a fact sheet before you” while winding up the debate on Wednesday without engaging in any “blame game”.

But the so-called “blame game” had already begun as two members of the opposition Pakistan Muslim League-N, while speaking on the admissibility of an adjournment motion tabled by the Muttahida Qaumi Movement seeking the debate, blamed the Pakistan People’s Party-led coalition government for the prevailing law and order situation — though their senior colleague Khawaja Mohammad Asif called it a collective national shame — and the treasury benches turned their guns at the Punjab government for alleged links with banned groups like Lashkar-i-Jhangvi.

Such allegations have been denied by the Punjab government in the past, but no-one did it in the National Assembly on Tuesday except for some hot exchanges with the PPP’s Minister of State for Interior, Imtiaz Safdar Warraich, who first took up the cudgels for his party by referring to such a liaison in response to attacks from PML-N’s Sheikh Rohale Asghar and Chaudhry Birjees Tahir.

PML-N benches later became empty when speakers from coalition partners, including Education and Training Minister Sheikh Waqqas Akram and Defence Production Minister Sardar Bahadur Khan Sehar of the PML-Q, blasted the Punjab government.

However, in a simultaneous sitting of the Senate, PML-N Senator Pervez Rashid, while speaking on a point of order, dismissed unspecified statements of the interior minister alleging a deal between the Punjab government and Lashkar-i-Jhangvi and asked him to adopt a responsible attitude rather than one that he said could cause problems for Pakistan with “a certain meaning of his statements taken in London, America and Delhi”.

But Mr Malik, who said he had cancelled a visit to Afghanistan for Tuesday because of the situation at home, was not so outspoken about the PML-N in his lower house speech and called for a joint planning of “our role” with the Punjab government.

“People ask ‘is Lashkar-i-Jhangvi a monster or a superpower’ against which we could do nothing,” the minister remarked, and, addressing the Punjab government, said: “Let us sit together, in a closed room, (to decide) whom we have to catch and whom not to spare. Let us work together, let us talk about the security of the country.” But he regretted the alleged role of the Punjab police in reportedly preventing the removal of flags of a banned group and a picture of its leader from a hoarding in the Punjab town of Jhang.

That allegation was repeated by Minister Waqqas Akram who said he had bought the advertisement hoarding to his home town in order to remove the objectionable flags and pictures, but the armed provincial police prevented this from happening in what he saw as “a small but shameful act” of state or police patronage. “If you can’t remove a flag and one picture from a board, you can’t fight a war against terrorism.”

Initiating the debate, Wasim Akhtar of the MQM, which left the PPP-led governments at the centre and in Sindh only last month but continues to have its governor in the province, regretted what he saw as a failure of the authorities to take notice of warnings by his party leader Altaf Hussain as well as of the interior minister about feared “Talibanisation of Karachi” and said: “We have now lost confidence in the government and are left with no option but arrange our own protection.”

Addressing his remarks to President Asif Ali Zardari, he said: “I ask the supreme commander ‘why you are not taking action (when) you have the powers’.”

PML-N’s Khawaja Asif said that while repeated massacres of Shias and what he called “cleansing” had “made our heads as a nation hang in shame”, the situation had not only worsened but become “worst” in five years since 2008. But he said he expected little improvement or any use of a joint session of parliament when the present assembly and the government were left with only 10 days of their terms, and wished the next assembly and the government to come up to people’s aspirations.

Noor Alam Khan, a PPP member from Peshawar, said he thought Punjab rulers’ “hands are stained” with the blood of victims of terrorism because of their alleged support for the banned groups as evident from what he called some provincial ministers “roaming with terrorists”. He called for the adoption of a resolution by the house on whether “we go for negotiations or go for an operation” against terrorist groups.

Himayatullah Mehyar of the government-allied Awami National Party said everybody knew about the existence of “terrorist centres” such as the banned Lashkar-e-Taiba based in Muridke and Lashkar-i-Jhangvi in Jhang while some operated from occupied ANP offices in Karachi, and added that law-enforcement agencies had a constitutional obligation to act against such organisations.

PML-Q’s minister Sardar Mehar wondered why there should be no operation against terrorist hideouts in Punjab while law and order was a provincial responsibility and said all political forces and law-enforcement agencies had to get together to save the country from fundamentalism and to bring it back to what he called secular path envisioned by the Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah.

Tuesday, March 5, 2013

The sectarian menace

From the Newspaper | Tariq Khosa

IN the wake of the attacks against the Hazaras in Quetta, accusations have been levelled by a section of civil society, media and human rights organisations that the armed forces and its intelligence agencies have some links with proscribed militant outfits like the Lashkar-i-Jhangvi (LJ).

There is also a widespread general perception that our security establishment calls the shots on internal security issues, especially those pertaining to Balochistan and Fata.

This criticism against a publicly respected institution of the armed forces resulted in an emphatic denial by none other than the chief of the ISPR, the military’s media wing, at a specially arranged media briefing last month.

At the same time the secretive and powerful ISI formally told the Supreme Court that it had conveyed prior information about the transfer of large-scale chemicals from Lahore for preparation of explosives in Quetta to be soon used against the Hazaras.

It conceded that formal counterterrorism operations were not part of the ISI’s mandate, implying that the Frontier Corps (FC) and the police had failed to prevent the carnage even after being given clear information.

A military spokesman stated clearly that “the armed forces were not in contact with any militant organisation, including the Lashkar-i-Jhangvi”. This realisation is welcome, especially after a change in the military doctrine recently when the army chief unequivocally declared on Independence Day in 2012 that the Pakistani state was pitted against an internal enemy in the form of militant organisations that were planning to unravel the country through terrorism and religious extremism.

The very public and categorical denial by the army command should also result in the institution’s own soul-searching and internal accountability about the patronage of certain militant organisations by the military and the intelligence agencies, especially during the Zia and Musharraf eras.

The present army command knows and understands that security-handling and political engineering by the Military Intelligence (MI) in Balochistan led to the woes of that unfortunate province that continues to bleed due to the unresolved issue of the missing persons, the Baloch insurgency, targeted killings of Punjabi settlers and sectarian terrorism, especially against the Hazara Shias.

While ruling out any collaboration at any level, the army spokesman stated that there was “no reason to think about the army’s involvement” with the LJ. He vociferously added that “there is no way the army can afford this. If such a thing comes to notice it will be sorted out”.

The record shows and all Hazaras know that there was not a single incident of sectarian terrorism in Quetta or the entire province in 2007 because high-profile LJ terrorists like Usman Kurd and Dawood Badini had been apprehended and incarcerated in a high-security, anti-terrorism police force-guarded prison in the
military cantonment in Quetta.

Will the army command and intelligence agencies honestly probe the circumstances under which the LJ desperados escaped from a secure facility in January 2008? Is it not a fact that the LJ Balochistan regrouped under these fugitives and since then has unleashed a reign of terror, not only in Quetta but all over the country?

In my view, the armed forces now have a responsibility to come up to the expectations of the victim Shia community of Quetta and leave no stone unturned to re-arrest the LJ fugitives.

No army operation is required for this challenging task. All it requires is for the Crime Investigation Department, the Special Branch, Intelligence Bureau, and the ISI to pool their resources, share information and help the police, FC and the armed forces for a targeted raid in an area which is outside the jurisdiction of the police.

It is now time to address the civil-military disconnect to resolve the issue of internal security fault lines and stop blaming each other. Sectarian violence is now the biggest threat to our national cohesion and peace.

The timing is also crucial because the next national elections are around the corner.

An inept and corrupt government failed to muster the political will to tackle the security challenges facing Balochistan during the last five years.

A truly representative new political leadership elected as a result of fair and transparent elections will hopefully be chastened by the previous misrule and try to deliver peace and progress to the hapless citizens of a province crying for the healing touch of reforms.

Meanwhile, our security establishment led by the armed forces and intelligence agencies, who have been part of the problem, has to become a very active part of the solution to combat sectarian terrorism, resolve the issue of missing persons, guard our vast frontiers, and actively support the police, Levies, and civil armed forces such as the FC and Coast Guard.

It must do so not only to protect our vital national assets in Balochistan but become part and parcel of good governance and service delivery for citizens of the hinterland of our nation. I wish it Godspeed.

The writer is former IG police, Balochistan.

The Stream - Searching for protection

Thursday, February 28, 2013

دھرنے اور تبدیلی

Tuesday 26 February 2013



بارہ جنوری 2013 کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میتوں کے ساتھ احتجاجی دھرنے میں موجود ہیں — اے ایف پی تصویر

کیا دھرنے تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ 

سیاسی کارکنوں میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ مسائل دھرنے سے ہی حل ہو سکتے ہیں یا یہ دھرنے کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ گواحتجاج کی یہ شکل پرانی ہے مگرآج بھی موثر ہے۔ حالیہ کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنوں نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔

ہر طرح کا احتجاج دراصل سماج سے رجوع کرنے کا مظہر ہے۔ مظاہرہ تھوڑٰی دیر کا احتجاج ہے جس کے ذریعے متعلقہ حکام کو مطالبات سننے پر مجبور کیا جاتا ہے یا ان مطالبات کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلائی جاتی ہے اور رائے عامہ بنائی جاتی ہے۔

ریلی اور جلوس موبائل احتجاج ہے۔ جس میں احتجاج کرنے والے اہم علاقوں کا گشت کرکے لوگوں کو اپنی اور اپنے مطالبات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

دھرنے کی نوعیت ان دو سے مختلف ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ مطالبے پر اصرار کرنا ہے۔ یعنی یہ احتجاج کسی عمل کو روکنے یا عمل پر متعلقہ حکام کو مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مظاہرین کسی اہم جگہ پر دھرنا مار کر اس طرح بیٹھ جاتے کہ کوئی مخصوص عمل کو روک سکیں یا اس میں رکاوٹ بنیں۔ دھرنے میں عزم اور مالکی زیادہ ہوتی ہے کہ ہم تب تک بیٹھے ہیں جب تک مطالبات منظور نہیں ہوتے۔ پھر انہیں زبردستی اٹھایا نہیں جاتا یا گرفتار نہیں کیا جاتا۔

دھرنوں کی حالیہ لہر وال اسٹریٹ پر قبضے سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد بڑا اور کامیاب تجربہ مصر کے التحریر اسکوائر کا ہے۔ جس نے مصری حکومت کا خاتمہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کی متحرک قوتوں کو اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی کو برقرار رکھنا خاصا مسئلہ ہو رہا ہے۔

دھرنا دراصل راست قدم کی ایک شکل ہے، مگرعدم تشدد پر مبنی پرامن طور احتجاج ہے۔

عام طور پر دھرنے احتجاج کا کامیاب ترین نسخہ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ پورے عمل میں رخنہ پیدا کرتے ہیں۔ پرامن رہتے ہوئے یہ کسی بھی علاقے کو بند کرنے کا موثرترین طریقہ ہے۔

احتجاج کرنے والے پرامن ہوتے ہیں ایسے میں حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو بھی مصیبت میں آجاتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کی ہمدردیاں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔

دھرنے ہمیشہ سے سول نافرمانی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران احتجاج کے اس طریقے کے نتیجے میں شہری حقوق کا قانون منظور ہوا۔ اور اس کے بعد نسلی بنیاد پر عوامی مقامات پر علحدگی ختم ہوئی۔

آگے چل کر دھرنے نے گھیراؤ اور قبضے کی تحریک کوجنم دیا۔ یہ احتجاج کی شکل مزدوروں کی جدوجہد سے شروع ہوئی جو بہتر تنخواہوں سے لیکر سرمایہ داری نظام کے خاتمہ تک کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مزدوردھرنا مار کر بیٹھ جاتے تھے اور کارخانہ چلنے نہیں دیتے تھے۔

بعد میں قبضے کی تحریک سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگی۔ 2010 میں لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر میں جمہوریت کا گاؤں کے نام سے خیمہ بستی لگائی گئی۔ 2011ع میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک چلی۔ جو دنیا بھر میں چل رہی ہے۔ گزشتہ سال اسپین میں بھی دھرنوں کی تحریک چلی۔ اس کے بعد مصر میں انقلاب التحریر اسکوائر آیا۔

دنیا بھر کے مزدوروں کی طرح پاکستان میں بھی مزدور یونینز مطالبات منوانے کے لیے دھرنے دیتی رہی ہیں۔ سندھ ٹیننسی ایکٹ بھی دھرنے کے نتیجے میں منظور ہوا تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدربخش جتوئی کی قیادت میں سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا تھا۔

زبردستی منظور کرایا گیا قانون اس وجہ سے برقرار رہا کیونکہ صوبے میں رائے عامہ اس کے حق میں تھی۔ مزید یہ بھی کہ ریاستی مشینری پر وڈیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا۔ اس لیے انہیں یقین تھا کہ وہ ہاریوں کے حق میں بنائے گئے اس قانون کو غیر موثر رکھیں گے اور عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اس قانون کو منظور ہوئے آدھی صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر کبھی بھی اس پر عمل نہیں ہوا۔

پاکستان کی سیاست میں دھرنے کا تصور مولانا عبدالحمید بھاشانی نے ساٹھ کے عشرے کے آخر میں گھیراؤ جلاؤ کے نعرے سے کیا۔ بائیں بازو کے بعض گروپ بھی اس نعرے میں بہہ گئے۔

ساٹھ اور ستر کے عشرے میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بعض مزدوریونینز نے کارخانوں کا گھیراؤ کر مطالبات منوانے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں کراچی اور ملتان میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور کچھ مزدورہلاک بھی ہوئے۔

اس تحریک کے بعض منفی نتائج بھی نکلے۔ سرمایہ داروں نے اس تحریک کو بھٹو کی قومیانے کی پالیسی کے ساتھ جوڑا اور ملک سے سرمایہ کو باہر لے گئے۔ مہم جوئی کی آڑ میں حکومت کو موقعہ ملا کہ وہ ملک میں مزدور تحریک کو کچل دے۔

ماضی قریب میں ہمارے ملک میں دھرنے کی سیاست لانگ مارچ کیساتھ آئی۔ نواز شریف کے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف بینظیر بھٹو نے سندھ پنجاب سرحد پر کموں شہید کے مقام پر اور ولی خان نے اٹک کے پل پر دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنے اگرچہ چند گھنٹوں کے لیے تھے مگر موثر ثابت ہوئے اور نواز شریف حکومت کو آئندہ چند ماہ میں جانا پڑا۔

حال ہی میں علامہ طاہرالقادری نے انتخابی قوانین اور نگراں حکومت کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ یہ دھرنا ایک حد تک کامیاب رہا کہ حکومت کو ان کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔

انہی دنوں کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 83 سے زائد افراد دہشتگردی کے ایک واقعہ میں ہلاک ہوئے۔ جس کے خلاف دھرنا دیا۔ حکومت کو ان کے مطالبات ماننے پڑے۔

فروری کے دوسرے ہفتے میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ ان واقعات کو ہزارہ کمیونٹی –جس کا تعلق اہل تشیع فرقے سے ہے– نے کمیونٹی کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا اور دو روز تک کوئٹہ میں دھرنے دیئے گئے۔

ملک بھر میں اہل تشیع نے کوئٹہ کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی دکھا کر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ تمام شاہراہیں بلاک کردی گئیں۔ مظاہرین نے ملزمان کی گرفتاری تک لاشیں دفنانے سے انکار کردیا۔ گزشتہ ماہ ان کے مطالبے پر بلوچستان میں رئیسانی کی صوبائی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ان کی لسٹ میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ کوئٹہ کا انتظام فوج کے حوالے کیا جائے۔

سندھ میں قوم پرست جماعتیں دھرنے دیتی رہی ہیں۔ مگر ان کے دھرنے موثر ثابت نہیں ہوئے۔ حال ہی میں قوم پرستوں نے متنازع بلدیاتی نظام کے خلاف حیدرآباد کے بائی پاس پر دھرنا دینے کی کوشش کی تھی، مگر پولیس نے ان سے بائی پاس خالی کرالیا۔ لیکن علامہ قادری کے دھرنے یا سندھ سمیت ملک بھر میں ہزارہ کیمونٹی کی حمایت میں لگنے والے دھرنوں کے خلاف پولیس یا رینجرز وغیرہ استعمال نہیں کی گئی۔

یہ معاملہ اس وجہ سے بھی حساس تھا کہ کوئٹہ میں درجنوں لوگوں کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ اور وہ مظاہرین لاشیں رکھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ عالمی برادری کے آواز اٹھانے کی وجہ سے معاملے کی حساسیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ یہ بھی کہ یہ ایک مذہبی فرقے کا معاملہ تھا جو سماج اور ریاست کے مختلف اداروں کے حصوں کو متاثر کر سکتا تھا۔

دھرنے کی اثرپذیری کی وجہ سے بعض سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا دھرنوں کو سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر بحث چل رہی ہے۔ اس بحث کے اہم نکات کو ان الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے۔
- عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں اگر صحیح نظریہ اور سچی قیادت کے تحت عوام سڑکوں پر آجائیں تو انقلاب آکر رہتا ہے۔

- اس طرح کے دھرنوں سے فرق پڑتا ہے۔

- تبدیلی شعور سے آتی ہے۔ ہمارے پاس آج بھی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ فوجّ آئے اور آکر حالات کو ٹھیک کرے۔ جبکہ فوج نے کئی سال حکومت کی مگر کوئی فائدہ نہیں۔

- پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ لوگوں کو کونسی تبدیلی چاہئے؟ لوگوں کو انفرادی مفادات سے آزاد کریں گے تب تبدیلی آئے گی۔

- ہم ایک گلی میں رہتے ہوئے بھی ساتھ نہیں تو انقلاب میں کیسے ساتھ ہونگے؟

- انقلاب لفظ کا اتنا غلط استعمال ہوا ہے کہ اب اس لفظ پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔

- دھرنے انقلابی یا سماجی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ انقلاب کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے نظریہ اور سوشل پلان چاہئے۔

- دھرنے سے شاید انقلاب لیا جا سکتا ہے مگر یہ تبدیلی برقرار کیسے رہے؟ ریاستی مشنری مزاحمت کرے گی۔ ریاستی مشنری پر قبضہ کرنا اور اسکو کنٹرول میں رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ دنیا میں ناکام انقلابوں اور تجربوں کی کہانیاں یہی بتاتی ہیں۔

- یہ ایک جدوجہد کی شکل ہے جسے مسلسل کرتے رہنے سے فرق پڑ سکتا ہے۔

- عرب دنیا میں انقلاب کیوں ناکام ہوئے؟ یہ سب دھرنا سیاست کے ذریعے آئے تھے۔ اگر باضابطہ کوئی تنظیم ہوتی تو لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچتا۔

دھرنے کے ذریعے شاید کوئی چھوٹا موٹا مطالبہ تو منوایا جاسکتا ہے لیکن ہر دھرنا کامیاب نہیں ہوتا۔ صرف وہی دھرنے کامیابی حاصل کر پاتے ہیں جن کی پشت پر کچھ دوسری طاقتیں بھی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دھرنے کے مطالبات عوام میں صرف مقبول ہی نہ ہوں بلکہ ان کے لیے شدت سے خواہش بھی موجود ہو۔

اگرکوئی سیاسی قوت یا کوئی پرکشش نعرہ عوام کو اتنا متحرک کر بھی دیتا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے، تو یہ قبضہ وقتی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے جس تنظیم کاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان جیسے ممالک میں ناپید ہے۔ ریاستی مشینری ابھی بھی اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایسے کسی چیلنج کا مقابلہ کرسکے۔ فرینچ انقلاب سمیت دنیا کے ناکام انقلابوں کے تجربے اور کہانیاں اس کی واضح مثال ہیں اور ان سے بڑا سبق بھی ملتا ہے۔

بلاشبہ عوام میں بڑی طاقت ہے۔ لیکن یہ طاقت جب ہی سیسہ پلائی دیوار بنتی ہے جب تنظیم کاری اور بے لوث قیادت بھی 
وجود ہو۔