Wednesday 8 May 2013
۔ — اے ایف پی فائل فوٹو
پاکستان میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کی جانب تبدیلی ایک خوشگوار عمل ہے جس پر ہمیں مسرت کا اظہار کرنا چاہئے- پاکستان میں میرے حالیہ دورے کے دوران جب بھی مجھ پر پاکستان کے مستقبل کے تعلق سے ” قنوطیت پسندی ” کا الزام لگایا گیا- میں نے یہ الفاظ دہرائے جس نے اس الزام کو دھونے میں چھو منتر کا کام کیا-
چنانچہ ، اب جب کہ فی الحال ہم خوشی منارہے ہیں ، مجھے موقع دیجئے کہ میں اپنی قنوطیت پسندی کی وجہ بیان کروں – اس سال کے آغاز میں میں دو دستاویزی فلمیں بنانے کیلئے پاکستان آیا -
اپنی پہلی دستاویزی فلم کیلئے میں کوئیٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تحقیقات کرنا چاہتا تھا – دوسری دستاویزی فلم کیلئے میں پاکستان میں توہین شان رسالت کے قوانین کا جائزہ لے رہا تھا ، خاص طور پراس حوالےسے کہ یہ قانون پاکستان کی عیسائی اقلیت پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے -
یہاں پہنچنے کے فوراہی بعد میں نے یہ خبر سنی کہ لاہور کی جوزف کالونی کے تعلق سے توہین رسالت کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے – ایک عیسائی ساون مسیح اوراسکے ایک قریبی مسلمان دوست کے درمیان مئے نوشی کے بعد گرما گرمی اور جھگڑا ہوگیا – اورساون مسیح پرتوہین رسالت کا الزام لگایا گیا -
اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں کے اندرعیسائیوں کے سو سے زیادہ مکانوں اور دو گرجا گھروں کونذرآتش کردیا گیا – پولیس نے عیسائی گھرانوں کو وہاں سے بچ نکلنے میں مدد کی تاکہ لوٹ مار اور آتش زنی کرنے والوں کوکھلی چھوٹ مل جائے -
جوزف کالونی کا سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں ” اقلیتوں کے حقوق ” اور ” قانون کی بالادستی ” ایسے الفاظ ہیں جن کی کوئی خاص قانونی یا عملی حیثیت نہیں ہے -
یہاں سے چند سو میل دور کوئیٹہ میں میری ملاقات رخسانہ بی بی سے ہوئی جو چار بچوں کی ماں ہے ، رخسانہ ہزارہ شیعہ ہے – جب ہم اسکے آبائی مکان کے فرش پربیٹھے تھے تو اس نے مجھے دس جنوری کے واقعات سنائے -
اسی دن صبح میں علمدار روڈ پر واقع ایک اسنوکرہال گیا تھا جو اب ایک ڈھانچہ تھا – جنوری میں ایک خودکش بمباراس ہال میں گھس آیا تھا جہاں نوجوان ہزارہ جمع ہوتے ہیں اور اس نے خودکش حملہ کر دیا – پندرہ منٹ بعد جب رضاکاراور ریسکیو ٹیمیں وہاں مدد کیلئے پہنچیں تو ایک اور بم پھٹا – اس دن ایک سو بیس افراد لقمہء اجل بن گئے -
مدد کرنے والوں میں رخسانہ بی بی کے تین لڑکے بھی تھے ” جب میں نے یہ خبر سنی تو میں ننگے پیر وہاں دوڑی اور وہاں میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی لاشیں دیکھیں – میں نے ان کے چہرے چومے – میں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سے کہا . بیٹے تم قبر میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھنا ” – یہ کون لوگ ہیں جو سنیوں اور شیعوں کو لڑانا چاہتے ہیں ؟ -
لشکر جھنگوی ( ایل – جے ) کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کی شیعہ برادری کوبرسہابرس سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے – کوئیٹہ میں رہنے والے ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ اسنوکر ہال پربم حملے کے دس منٹ بعد اسے عسکریت پسندوں کے ایک رہنما کا فون آیا جس میں اس سے کہا گیا تھا کہ وہ لشکر جھنگوی کا بیان شائع کرے کہ وہ اس بمباری کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور یہ کہ شیعہ برادری کے خلاف ان کا یہ موقف جائز ہے -
اس سے زیادہ تشویشناک تو فوج ، پولیس اورکوئیٹہ کے پالیسی سازوں کے بیانات ہیں جنہوں نے یہ بتایا کہ ایل جے کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی – فوج کے ایک سینئرترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ” کوئیٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے – اس کا نصف علاقہ کنٹونمنٹ ہے – ہم اس حملے کو روک سکتے تھے لیکن انٹلیجنس سروس نے ہمارا ساتھ نہ دیا – یہاں کوئی بڑی سازش ہو رہی ہے “-
جب بھی میں کوئیٹہ میں بم دھماکوں کی وجوہات جاننا چاہتا ہوں تو مجھے تقریبا سبھوں سے یہی جواب ملتا ہے کہ اس میں ایرانی اور سعودی اثر اور امریکی ڈالرز کا ہاتھ ہے اور یہ جغرافیائی سیاسی ( جیوپولیٹیکل ) جنگ ہے -
ان ‘ بیرونی عناصر’ کی بنا پرنہ تو فوج اور نہ ہی پولیس کوئیٹہ کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے -
سازشی عناصر اور جھوٹے نظریات کا ملغوبہ پاکستانی سیاست میں اس حد تک در آیا ہے کہ کوئی بھی کبھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ —- حکومت پاکستان اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے میں مسلسل ناکام کیوں ہے ؟
جوزف کالونی میں مٹھی بھر لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن توہین رسالت کے قانون پر عوامی بحث کیوں نہیں ہوتی ؟ لشکر جھنگوی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ کاغذ پر تو یہ جماعت ممنوع ہے – لیکن اسکی ذیلی تنظیم سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت کے نام سے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کر رہی ہے -
اس پر کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا ؟ بہت سے پاکستانی تو سرحد کے اس پار اشارے کرنے میں بے حد مصروف ہیں – اور ناقابل فہم تاویلات کے ساتھ یہ تسلیم بھی نہیں کرنا چاہتے کہ حکومت اس معاملے میں سو رہی ہے – اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے – حکومت کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس کی جوابدہی کرے -
اسلام آباد میں پال بھٹی کے گھر میں ، جو باہمی ہم آہنگی کے سابقہ وزیر رہ چکے ہیں مجھے اس سوال کا ایماندارانہ جواب ملا کہ حکومت کیوں ناکام ہو رہی ہے -
” پاکستان کی تاریخ کا بڑا حصہ فوج کی حکمرانی کی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے – ہمیں کبھی اس بات کا نہ تووقت اور نہ ہی موقع دیا گیا کہ ہم پالیسی پرمناسب طور پر عمل درآمد کر سکیں “-
وہ غالباً ، انتخابات سے پہلے قائم ہونے والی نگران حکومت کی وجہ سے کھل کربات کر رہے تھے ، اس بات میں وزن نظر آتا ہے – ایک ایسے ملک میں جہاں فوج ثقافتی اور مالیاتی لحاظ سے طاقت کا سرچشمہ ہو، وہاں سیکورٹی میں کمی کا ذمہ دار کسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟-
حقیقت یہی ہے کہ ، پاکستان میں منتخب حکومت کوبمشکل ہی اس بات کا موقع ملاکہ وہ پاکستان میں کوئی مکمل پالیسی بنائے اور اس پر موثر طور پر عمل درآمد کرے – فوجی مداخلت کے نتیجے میں انتخاب کنندگان اس درجے بے بس ہو چکے ہیں کہ اب وہ مکمل طور پرمایوسی کا شکار ہیں – سیکورٹی نہیں ہوگی تو ترقی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی استحکام – کچھ بھی نہیں ہوسکتا -
چنانچہ ، مجھے وجہ سمجھ میں آتی ہے – جب میں رخسانہ بی بی سے یہ پوچھتا ہوں کہ وہ حکومت سے کیا توقعات رکھتی ہیں تواس کا جواب ہوتا ہے ، ” مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں – میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ یہ قتل وغارت گری ختم ہو “
پاکستان کے رائے دہندگان اورقیادت کے درمیان تعلقات کواس انتخابات کے نتیجے میں بہترہونا چاہئے – جیت اورہارکی قیاس آرائیوں اوردہشت گردی کے باوجود بھی ایک فتح تو حاصل ہو چکی ہے – پاکستانی عوام کو بالاخر ایک جمہوری تبدیلی کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے – قبیلہ واریت پر قابو پا کراور اپنے رہنماؤں کوجواب دہی کا ذمہ دار بنا کرپاکستان سے ناامیدی کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا -
پاکستان میں اقلیتوں پر جبرو تشدد کے مسئلہ کو 2013 کے انتخابی منشور کا حصہ نہیں بنایا گیا – اقلیتوں کے حقوق کے مسئلہ کوانتخابی منشور کا حصہ بنانے میں شائد ایک پشت گزر جائے لیکن جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے – صرف بیلٹ بکس کے ذریعہ ہی پاکستانیوں کو یقین آسکتا ہے کہ وہ اپنا مستقبل خود بنا سکتے ہیں اور وہ ایک ایسی قوم بن سکتے ہیں جو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے سکے -
ترجمہ: سیدہ صالحہ