Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Sunday, May 12, 2013

Suicide bomber kills three in Quetta

By Web Desk
Published: May 12, 2013



PHOTO: FILE

A suicide bomber targeting IG Balochistan Mushtaq Sukhera killed at least three people in Quetta on Sunday evening, Express News reported.

Many were feared to be injured, including security officials.

Multiple rockets were also fired in the city shortly before the suicide blast.

The explosions were followed by heavy firing in the city.

The force of the explosions shattered windows of many buildings.

After the rocket attacks, many areas of the city were left without electricity.

Note: This is a developing story and will be updated accordingly.

Footage of Quetta Blast (Exclusive)

Casualties reported in Quetta blast near SAMAA TV office

Sunday, May 12, 2013 10:35:23 PM



Staff Report

QUETTA: Casualties were reported in a powerful blast near office of SAMAA TV located at Jinnah Road in the city late night, SAMAA reported Sunday.

Some sources said the blast ripped through a public gathering of Balochistan National Party-Mengal (BNP-M).

The blast occurred near SAMAA office located at Jinnah Road; the blast was so powerful that the panes of the office of SAMAA TV.

The blast caused harm to the SAMAA TV office and its belongings. The vehicles parked in the premises were damaged in the blast.

The explosion was followed by intense firing in the area.

Law-enforcers including police rushed to the blast site.

The nature and magnitude of the blast could not be ascertained as yet. There is also no immediate report regarding exact number of casualties. –SAMAA

Friday, May 10, 2013

Double challenge: Being Hazara & the first woman to stand in Quetta for NA


Pakistani candidate for national assembly for Pakistan Muslim League-Q (PML-Q) party Ruquiya Hashmi, waves to supporters during an election campaign meeting in Quetta.

Hazara Shia community members and supporters of Ruquiya Hashmi, carrying electoral posters as they take part in an election campaign meeting.
Hazara Shia community members and supporters of Ruquiya Hashmi, carrying electoral posters as they take part in an election campaign meeting.

Ruquiya Hashimi (C) talks to people during her election campaign corner meeting.
Ruquiya Hashimi (C) talks to people during her election campaign corner meeting.

A woman holds a poster of Ruquiya Hashimi during her election campaign rally.
A woman holds a poster of Ruquiya Hashimi during her election campaign rally.

People lean against a wall with posters of Ruquiya Hashimi and a painting of Pakistan's national flag outside her election campaign office.

People lean against a wall with posters of Ruquiya Hashimi and a painting of Pakistan's national flag outside her election campaign office.

Ruquiya Hashimi (front R) talks to people during her election campaign corner meeting.
Ruquiya Hashimi (front R) talks to people during her election campaign corner meeting.

By Agencies

Posted on: 10:50 pm | May 9, 2013

Ruquiya Hashmi, a doctor and a former soldier, faces a double challenge — as well as being Hazara she is also the first woman to stand in Quetta for the national assembly. For the past few days she has had threatening phone calls and letters sent to her offices. She is running for Pakistan Muslim League-Q (PML-Q), an ally of the outgoing government, but she is determined to stand up to the extremists. In the city that has become the epicentre for record sectarian bloodshed in Pakistan, Shia candidates are braving death threats to make themselves heard in Saturday’s election. – Photos and text by Agencies

Thursday, May 9, 2013

نا امیدیاں؟


Wednesday 8 May 2013



۔ — اے ایف پی فائل فوٹو

پاکستان میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کی جانب تبدیلی ایک خوشگوار عمل ہے جس پر ہمیں مسرت کا اظہار کرنا چاہئے- پاکستان میں میرے حالیہ دورے کے دوران جب بھی مجھ پر پاکستان کے مستقبل کے تعلق سے ” قنوطیت پسندی ” کا الزام لگایا گیا- میں نے یہ الفاظ دہرائے جس نے اس الزام کو دھونے میں چھو منتر کا کام کیا-

چنانچہ ، اب جب کہ فی الحال ہم خوشی منارہے ہیں ، مجھے موقع دیجئے کہ میں اپنی قنوطیت پسندی کی وجہ بیان کروں – اس سال کے آغاز میں میں دو دستاویزی فلمیں بنانے کیلئے پاکستان آیا -

اپنی پہلی دستاویزی فلم کیلئے میں کوئیٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تحقیقات کرنا چاہتا تھا – دوسری دستاویزی فلم کیلئے میں پاکستان میں توہین شان رسالت کے قوانین کا جائزہ لے رہا تھا ، خاص طور پراس حوالےسے کہ یہ قانون پاکستان کی عیسائی اقلیت پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے -

یہاں پہنچنے کے فوراہی بعد میں نے یہ خبر سنی کہ لاہور کی جوزف کالونی کے تعلق سے توہین رسالت کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے – ایک عیسائی ساون مسیح اوراسکے ایک قریبی مسلمان دوست کے درمیان مئے نوشی کے بعد گرما گرمی اور جھگڑا ہوگیا – اورساون مسیح پرتوہین رسالت کا الزام لگایا گیا -

اس واقعہ کے چوبیس گھنٹوں کے اندرعیسائیوں کے سو سے زیادہ مکانوں اور دو گرجا گھروں کونذرآتش کردیا گیا – پولیس نے عیسائی گھرانوں کو وہاں سے بچ نکلنے میں مدد کی تاکہ لوٹ مار اور آتش زنی کرنے والوں کوکھلی چھوٹ مل جائے -

جوزف کالونی کا سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں ” اقلیتوں کے حقوق ” اور ” قانون کی بالادستی ” ایسے الفاظ ہیں جن کی کوئی خاص قانونی یا عملی حیثیت نہیں ہے -

یہاں سے چند سو میل دور کوئیٹہ میں میری ملاقات رخسانہ بی بی سے ہوئی جو چار بچوں کی ماں ہے ، رخسانہ ہزارہ شیعہ ہے – جب ہم اسکے آبائی مکان کے فرش پربیٹھے تھے تو اس نے مجھے دس جنوری کے واقعات سنائے -

اسی دن صبح میں علمدار روڈ پر واقع ایک اسنوکرہال گیا تھا جو اب ایک ڈھانچہ تھا – جنوری میں ایک خودکش بمباراس ہال میں گھس آیا تھا جہاں نوجوان ہزارہ جمع ہوتے ہیں اور اس نے خودکش حملہ کر دیا – پندرہ منٹ بعد جب رضاکاراور ریسکیو ٹیمیں وہاں مدد کیلئے پہنچیں تو ایک اور بم پھٹا – اس دن ایک سو بیس افراد لقمہء اجل بن گئے -

مدد کرنے والوں میں رخسانہ بی بی کے تین لڑکے بھی تھے ” جب میں نے یہ خبر سنی تو میں ننگے پیر وہاں دوڑی اور وہاں میں نے اپنے تینوں بیٹوں کی لاشیں دیکھیں – میں نے ان کے چہرے چومے – میں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سے کہا . بیٹے تم قبر میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھنا ” – یہ کون لوگ ہیں جو سنیوں اور شیعوں کو لڑانا چاہتے ہیں ؟ -

لشکر جھنگوی ( ایل – جے ) کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کی شیعہ برادری کوبرسہابرس سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے – کوئیٹہ میں رہنے والے ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ اسنوکر ہال پربم حملے کے دس منٹ بعد اسے عسکریت پسندوں کے ایک رہنما کا فون آیا جس میں اس سے کہا گیا تھا کہ وہ لشکر جھنگوی کا بیان شائع کرے کہ وہ اس بمباری کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور یہ کہ شیعہ برادری کے خلاف ان کا یہ موقف جائز ہے -

اس سے زیادہ تشویشناک تو فوج ، پولیس اورکوئیٹہ کے پالیسی سازوں کے بیانات ہیں جنہوں نے یہ بتایا کہ ایل جے کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی – فوج کے ایک سینئرترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ” کوئیٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے – اس کا نصف علاقہ کنٹونمنٹ ہے – ہم اس حملے کو روک سکتے تھے لیکن انٹلیجنس سروس نے ہمارا ساتھ نہ دیا – یہاں کوئی بڑی سازش ہو رہی ہے “-

جب بھی میں کوئیٹہ میں بم دھماکوں کی وجوہات جاننا چاہتا ہوں تو مجھے تقریبا سبھوں سے یہی جواب ملتا ہے کہ اس میں ایرانی اور سعودی اثر اور امریکی ڈالرز کا ہاتھ ہے اور یہ جغرافیائی سیاسی ( جیوپولیٹیکل ) جنگ ہے -

ان ‘ بیرونی عناصر’ کی بنا پرنہ تو فوج اور نہ ہی پولیس کوئیٹہ کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے -

سازشی عناصر اور جھوٹے نظریات کا ملغوبہ پاکستانی سیاست میں اس حد تک در آیا ہے کہ کوئی بھی کبھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ —- حکومت پاکستان اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے میں مسلسل ناکام کیوں ہے ؟

جوزف کالونی میں مٹھی بھر لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن توہین رسالت کے قانون پر عوامی بحث کیوں نہیں ہوتی ؟ لشکر جھنگوی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ کاغذ پر تو یہ جماعت ممنوع ہے – لیکن اسکی ذیلی تنظیم سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت کے نام سے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کر رہی ہے -

اس پر کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا ؟ بہت سے پاکستانی تو سرحد کے اس پار اشارے کرنے میں بے حد مصروف ہیں – اور ناقابل فہم تاویلات کے ساتھ یہ تسلیم بھی نہیں کرنا چاہتے کہ حکومت اس معاملے میں سو رہی ہے – اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے – حکومت کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس کی جوابدہی کرے -

اسلام آباد میں پال بھٹی کے گھر میں ، جو باہمی ہم آہنگی کے سابقہ وزیر رہ چکے ہیں مجھے اس سوال کا ایماندارانہ جواب ملا کہ حکومت کیوں ناکام ہو رہی ہے -

” پاکستان کی تاریخ کا بڑا حصہ فوج کی حکمرانی کی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے – ہمیں کبھی اس بات کا نہ تووقت اور نہ ہی موقع دیا گیا کہ ہم پالیسی پرمناسب طور پر عمل درآمد کر سکیں “-

وہ غالباً ، انتخابات سے پہلے قائم ہونے والی نگران حکومت کی وجہ سے کھل کربات کر رہے تھے ، اس بات میں وزن نظر آتا ہے – ایک ایسے ملک میں جہاں فوج ثقافتی اور مالیاتی لحاظ سے طاقت کا سرچشمہ ہو، وہاں سیکورٹی میں کمی کا ذمہ دار کسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟-

حقیقت یہی ہے کہ ، پاکستان میں منتخب حکومت کوبمشکل ہی اس بات کا موقع ملاکہ وہ پاکستان میں کوئی مکمل پالیسی بنائے اور اس پر موثر طور پر عمل درآمد کرے – فوجی مداخلت کے نتیجے میں انتخاب کنندگان اس درجے بے بس ہو چکے ہیں کہ اب وہ مکمل طور پرمایوسی کا شکار ہیں – سیکورٹی نہیں ہوگی تو ترقی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی استحکام – کچھ بھی نہیں ہوسکتا -

چنانچہ ، مجھے وجہ سمجھ میں آتی ہے – جب میں رخسانہ بی بی سے یہ پوچھتا ہوں کہ وہ حکومت سے کیا توقعات رکھتی ہیں تواس کا جواب ہوتا ہے ، ” مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں – میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ یہ قتل وغارت گری ختم ہو “

پاکستان کے رائے دہندگان اورقیادت کے درمیان تعلقات کواس انتخابات کے نتیجے میں بہترہونا چاہئے – جیت اورہارکی قیاس آرائیوں اوردہشت گردی کے باوجود بھی ایک فتح تو حاصل ہو چکی ہے – پاکستانی عوام کو بالاخر ایک جمہوری تبدیلی کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے – قبیلہ واریت پر قابو پا کراور اپنے رہنماؤں کوجواب دہی کا ذمہ دار بنا کرپاکستان سے ناامیدی کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا -

پاکستان میں اقلیتوں پر جبرو تشدد کے مسئلہ کو 2013 کے انتخابی منشور کا حصہ نہیں بنایا گیا – اقلیتوں کے حقوق کے مسئلہ کوانتخابی منشور کا حصہ بنانے میں شائد ایک پشت گزر جائے لیکن جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے – صرف بیلٹ بکس کے ذریعہ ہی پاکستانیوں کو یقین آسکتا ہے کہ وہ اپنا مستقبل خود بنا سکتے ہیں اور وہ ایک ایسی قوم بن سکتے ہیں جو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے سکے -

ترجمہ: سیدہ صالحہ

Tuesday, May 7, 2013

Pakistan's under-fire Hazaras vow to make votes count

Agence France-PresseMay 7, 2013 01:15

In the city that has become the epicentre of sectarian bloodshed in Pakistan, Shiite Muslim candidates are braving death threats to make themselves heard in Saturday's election.

Shiites make up around a fifth of Pakistan's 180 million population but they are caught in a rising tide of sectarian hatred, targeted by extremist Sunni Muslim bombers and vilified on the campaign trail.

Quetta, capital of the southwestern province of Baluchistan, has been a focus for much of the violence and two devastating bombings earlier this year killed nearly 200 people from the city's ethnic Hazara Shiite population.

Banned Sunni extremist organisation Lashkar-e-Jhangvi (LeJ), which has links to Al-Qaeda, claimed the attacks and vowed to strike again.

The authorities stepped up security in some Hazara districts of Quetta but those running for office say the threats to their lives are so great that they are unable to move around freely to canvass for votes.

Ruquiya Hashmi, a doctor and a former soldier, faces a double challenge -- as well as being Hazara she is also the first woman to stand in Quetta for the national assembly.

For the past few days she has had threatening phone calls and letters sent to her offices. She is running for Pakistan Muslim League-Q, an ally of the outgoing government, but she is determined to stand up to the extremists.

"I'm lucky I'm a very brave woman. It's very challenging being a woman, being a Hazara, but God willing I will face the challenges and I will raise my voice," she said.... Continue Reading....