پاک ایران سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیرشی زائرین پراتوار کی شب ہونے والے خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 32 ہو گئی ہے۔
30 سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں بیشتر کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ خودکش حملوں میں جان بحق ہونے والے اکثر افراد کا تعلق خیبر پختونخوا ء سے بتایا گیا ہے پاکستان کی شعیہ تنظیموں نے ملک بھر اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری طرف ان دہشت گرد حملوں میں ملوث کالعدم جیشں الاسلام نامی شدت پسند تنظیم کے روپوش کا رکنوں کی گرفتاری کے لئے تفتان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جس میں فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔
ان خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کی لاشوں اور 22 زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ضروری کارروائی کے بعد مقامی افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ہیں جبکہ دیگر افراد کی لاشیں ان کے عزیز و اقارب کے ہمراہ خیبر پخونحواء کے علاقے کوہاٹ، پارہ چنار اور دیگر علاقوں میں بھیج دی گئیں ہیں قبل ازیں دیگر 240 شیعہ زائرین کو حملوں کے بعد رات گئے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے بعد میں آج صبح انہیں تفتان اور دالبندین سے سخت حفاظتی انتطامات میں ان کے گھروں کے لئے روانہ کیا گیا اس سے قبل سانحے کے سات شدید زخمیوں کو طبی امداد کے لئےایران بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ڈی ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیر شیعہ زائرین پر یکے بعد دیگر چار خودکش حملہ اورں نے حملے کئے جس سے زیادہ نقصان ہوا ان کا مزید کہنا تھا۔
،، تفتان میں پہلے ہوٹل میں جب خودکش حملہ اور داخل ہوا تو سکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کر کےاسے ہلاک کیا جبکہ دوسرے حملہ اور نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس سے کم نقصان ہوا تاہم کچھ ہی دیر میں دوسرے ہوٹل میں بھی دو خودکش حملہ اوروں نے داخل ہو کر حملہ کیا جس کی وجہ سے زیادہ زائرین شہید ہوئے۔،،
ان حملوں کے سوگ میں تحفظ عزہ داری کونسل اور دیگر شیعہ تنظیموں کی اپیل پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تفتان میں شیعہ زائرین پراگرچہ یہ پہلا حملہ تھا تاہم شیعہ رہنماوں نے اسےانتظامیہ کی غفلت سے تعبیر کیاہے شیعہ علماء کونسل کے سینیئر رہنماء علامہ زاہد حسین کے بقول حکومت انتہا پسند گروپوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لئے یہ واقعات بڑھتے جا رہے ۔
،، بے حسی کی انتہا ہے مسلسل زائرین کے ساتھ یہ واقعات پیش آرہے ہیں حکومت کو معلوم بھی ہے کہ تفتان بہت حساس علاقہ ہے اس کے باوجود زائرین کی حفاظت کے لئے کوئی موثر سکیورٹی انتطامات نہیں کئے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر زائرین کے تحفظ کے لئے انتظامات کئے جائیں اور جو دہشت گرد ان واقعات میں ملوث ہیں انہیں گرفتار کیا جائے۔ ،،
ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پرہونے والے حملوں کے خلاف کوئٹہ سمیت ملک کے بیشتر دیگر حصوں میں پیر کوشیعہ تنظیموں کی اپیل پر احتجاج بھی کیا گیا اورمختلف علاقوں میں مظاہرین نے بڑھتی ہوئی بد امنی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کے بقول شیعہ زائرین پر بڑھتے ہوئے حملوں کی اہم وجہ حکومت کی بے حسی ہے کیونکہ وہ شدت پسندوں کے خلاف سنجیدگی سے کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ ،، گزشتہ کئی سالوں سے ہماری نسل کشی جاری ہے اور دہشت گرد ہمیں ماررہے ہیں لیکن حکومت کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہی ہے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کی غیر سنجیدگی نہیں تو اور کیا ہے ہمارا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان گروپوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ ہمیں تحفظ فراہم ہو سکے۔ ،،
تفتان میں زائرین پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد وفاقی محکمہ داخلہ کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے ناکہ بندی کر کے تفتان اور ملحقہ علاقوں میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش السلام کے روپوش کارکنوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے اور آخری اطلاعات آنے تک یہ کارروائی جاری تھی اور اس آپریشن میں رسد کے لئے فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔