Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Wednesday, June 11, 2014

Yes, I am Hazara


Samaa TV Report on Taftan Attack

Monday, June 9, 2014

Pictorial Report: Victims of Taftan Terrorist Attacks












                                                      Pictures by Amir Musa Hazara 

Daily Qudrat 

بلوچستان میں شیعہ زائرین کی ہلاکتیں: تین روز کا سوگ


پاک ایران سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیرشی زائرین پراتوار کی شب ہونے والے خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 32 ہو گئی ہے۔


30 سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں بیشتر کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ خودکش حملوں میں جان بحق ہونے والے اکثر افراد کا تعلق خیبر پختونخوا ء سے بتایا گیا ہے پاکستان کی شعیہ تنظیموں نے ملک بھر اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری طرف ان دہشت گرد حملوں میں ملوث کالعدم جیشں الاسلام نامی شدت پسند تنظیم کے روپوش کا رکنوں کی گرفتاری کے لئے تفتان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جس میں فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔

ان خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کی لاشوں اور 22 زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ضروری کارروائی کے بعد مقامی افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ہیں جبکہ دیگر افراد کی لاشیں ان کے عزیز و اقارب کے ہمراہ خیبر پخونحواء کے علاقے کوہاٹ، پارہ چنار اور دیگر علاقوں میں بھیج دی گئیں ہیں قبل ازیں دیگر 240 شیعہ زائرین کو حملوں کے بعد رات گئے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے بعد میں آج صبح انہیں تفتان اور دالبندین سے سخت حفاظتی انتطامات میں ان کے گھروں کے لئے روانہ کیا گیا اس سے قبل سانحے کے سات شدید زخمیوں کو طبی امداد کے لئےایران بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ڈی ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تفتان میں مقامی ہوٹلوں میں قیام پزیر شیعہ زائرین پر یکے بعد دیگر چار خودکش حملہ اورں نے حملے کئے جس سے زیادہ نقصان ہوا ان کا مزید کہنا تھا۔

،، تفتان میں پہلے ہوٹل میں جب خودکش حملہ اور داخل ہوا تو سکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کر کےاسے ہلاک کیا جبکہ دوسرے حملہ اور نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس سے کم نقصان ہوا تاہم کچھ ہی دیر میں دوسرے ہوٹل میں بھی دو خودکش حملہ اوروں نے داخل ہو کر حملہ کیا جس کی وجہ سے زیادہ زائرین شہید ہوئے۔،،

ان حملوں کے سوگ میں تحفظ عزہ داری کونسل اور دیگر شیعہ تنظیموں کی اپیل پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تفتان میں شیعہ زائرین پراگرچہ یہ پہلا حملہ تھا تاہم شیعہ رہنماوں نے اسےانتظامیہ کی غفلت سے تعبیر کیاہے شیعہ علماء کونسل کے سینیئر رہنماء علامہ زاہد حسین کے بقول حکومت انتہا پسند گروپوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لئے یہ واقعات بڑھتے جا رہے ۔

،، بے حسی کی انتہا ہے مسلسل زائرین کے ساتھ یہ واقعات پیش آرہے ہیں حکومت کو معلوم بھی ہے کہ تفتان بہت حساس علاقہ ہے اس کے باوجود زائرین کی حفاظت کے لئے کوئی موثر سکیورٹی انتطامات نہیں کئے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر زائرین کے تحفظ کے لئے انتظامات کئے جائیں اور جو دہشت گرد ان واقعات میں ملوث ہیں انہیں گرفتار کیا جائے۔ ،،

ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پرہونے والے حملوں کے خلاف کوئٹہ سمیت ملک کے بیشتر دیگر حصوں میں پیر کوشیعہ تنظیموں کی اپیل پر احتجاج بھی کیا گیا اورمختلف علاقوں میں مظاہرین نے بڑھتی ہوئی بد امنی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کے بقول شیعہ زائرین پر بڑھتے ہوئے حملوں کی اہم وجہ حکومت کی بے حسی ہے کیونکہ وہ شدت پسندوں کے خلاف سنجیدگی سے کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ ،، گزشتہ کئی سالوں سے ہماری نسل کشی جاری ہے اور دہشت گرد ہمیں ماررہے ہیں لیکن حکومت کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہی ہے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادروں کی غیر سنجیدگی نہیں تو اور کیا ہے ہمارا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان گروپوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ ہمیں تحفظ فراہم ہو سکے۔ ،،

تفتان میں زائرین پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد وفاقی محکمہ داخلہ کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے ناکہ بندی کر کے تفتان اور ملحقہ علاقوں میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش السلام کے روپوش کارکنوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے اور آخری اطلاعات آنے تک یہ کارروائی جاری تھی اور اس آپریشن میں رسد کے لئے فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔

کشته شدن ۲۳ زائر شیعه پاکستانی در راه برگشت از ایران



به روز شده: 10:45 گرينويچ - دوشنبه 09 ژوئن 2014 - 19 خرداد 1393


مقامات پاکستانی می‌گویند که دست کم ۲۳ زائر شیعه پاکستانی در شهر تفتان در ایالت بلوچستان این کشور کشته شده‌اند.

کشته شدگان در بین گروهی از زائران شیعه بودند که در راه برگشت از ایران قرار بود شب را در شهر تفتان در بلوچستان پاکستان در نزدیکی مرز، سپری کنند.

بر اساس گزارشها افراد مسلح به محل اقامت این افراد حمله کرده تعداد زیادی از آنها را کشته و عده‌ای دیگر را مجروح کردند.

حمله علیه شیعیان پاکستان بارها اتفاق افتاده است به خصوص در ایالت بلوچستان که تعداد زیادی از شیعیان بویژه در کویته مرکز این ایالت سکونت دارند.

در اویل سال جاری میلادی نیز در حمله‌ای علیه شیعیان در همین ایالت تعدادی از انها کشته و مجروح شدند.

بیشتر این حملات از سوی گروههای تندروی سنی مذهب و مخالف شیعیان، صورت می‌گیرد.

به دنبال کشته شدن تعداد زیادی از آنها درکلیکسال گذشته میلادی، شیعیان کویته تا مدتی از دفن اجساد کشته شدگان خودداری کردند. آنها خواهان دخالت ارتش در این ایالت و حفاظت از اقلیت شیعه شدند.




Sunday, June 8, 2014

بلوچستان: تفتان میں شیعہ زائرین پر حملہ، 23 افراد ہلاک


محمد کاظم

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
پير 9 جون 2014

جنوری کے مہینے میں بھی بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر حملہ کیا گیا

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایرانی سرحد کے قریب علاقے تفتان میں اتوار کی شب شیعہ زائرین پر خودکش حملے اور دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 23 شیعہ زائرین ہلاک ہوئے ہیں اور متعدد زخمی ہو گئے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی کے ہمراہ اتوار کی شب کوئٹہ میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس حملے کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں اتوار کے روز 300 پاکستانی شیعہ زائرین آئے تھے اور وہ وہاں دو ہوٹلوں میں قیام پذیر تھے۔

انھوں نے بتایا کہ رات 9 بجے کے قریب ایک خود کش حملہ آور ایک ہوٹل کے قریب آیا اور وہاں سیکورٹی پر مامور لیویز فورس کے اہلکار پر فائرنگ کی جس سے لیویز فورس کا اہلکار شدید زخمی ہوا۔ اس کے فوراً بعد خود کش حملہ آور ہوٹل میں داخل ہوا اور وہاں اپنے آپ کو اڑا دیا۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا تاہم اس حملے کے بعد تین دیگر خود کش حملہ آور دوسرے ہوٹل میں داخل ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ دوسرے ہوٹل میں فائرنگ اور خود کش حملہ آوروں کو اپنے آپ کو اڑانے کے باعث 22 شیعہ زائرین ہلاک ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے کے فوراً بعد فرنٹیئر کور اور لیویز فورس کے اہلکار وہاں پہنچے جہاں حملہ آوروں اور ان کے درمیان فائرنگ کا بھی تبادلہ ہوا۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پر حملے کے بعد ملک بھر میں شیعہ برادری نے احتجاج کیا

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی سے وہاں حملہ آوروں کو مزید لوگوں کو ہلاک کرنے کا موقع نہیں ملا۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس حملے میں 7 افراد زخمی بھی ہوئے جن کو ان کی درخواست پر علاج کے لیے ایران منتقل کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پر یہ پہلا حملہ تھا جبکہ رواں سال کے دوران بلوچستان میں شیعہ زائرین پر دوسرا بڑا حملہ تھا۔

21 جنوری 2014 کو ضلع مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس کے قریب دھماکے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے تھے۔

مستونگ کے ڈی پی او محمد عابد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس قافلے کی سکیورٹی پر چار گاڑیاں مامور تھیں، لیکن خودکش بمبار نے اپنی گاڑی بس سے ٹکرا دی۔

اس سے قبل اسسٹنٹ کمشنر مستونگ شفقت انور شاہوانی کے مطابق شیعہ زائرین کی دو بسیں ایران سے واپس آ رہی تھیں کہ درنگڑ کے علاقے میں ان کے راستے پر دھماکہ ہوا اور ایک بس اس کی زد میں آ گئی۔

جنوری کے مہینے میں بلوچستان میں ایران سے آنے والے زائرین کی بس پر حملے کا دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل یکم جنوری کو کوئٹہ شہر کے مغربی بائی پاس پر اختر آباد کے علاقے میں ایسی ہی ایک بس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

At least 22 people killed in suicide attack near Pak-Iran border

By Syed Ali Shah


QUETTA: At least 22 people were killed and several others injured in two coordinated suicide blasts near the Pak-Iran border, Taftan late on Sunday night an high level official confirmed.

Balochistan's Home Secretary Akbar Hussain Durrani told Dawn.com that 10 buses carrying Shia pilgrims had entered Pakistan from Iran.

"There were explosions after the buses were parked outside the hotels where the pilgrims were going to stay over night before they commenced their journey back the following day," Durrani said adding that the blasts were followed by intense firing. He feared the casualties will continue to rise.

Frontier Corps and levies personnel were called in to bring the situation under control. It has been more than right years that Shia pilgrims in Mastung and other parts of Balochistan are targeted by militants.

Presently, no militant organisation has claimed responsibility for the attack.

3 killed, several injured as pilgrims' bus attacked in Taftan

 08 June,2014

QUETTA (Dunya News) – At least three persons have been killed and several others injured as gunmen attacked a pilgrims’ bus parked outside a hotel in Taftan area with firing and grenade here on Sunday night, Dunya News reported.

According to sources, pilgrims’ bus was arriving from Iran to Quetta and unidentified men attacked the bus when it was parked outside a hotel in Taftan.

Reportedly, armed men kept firing for 10-15 minutes. At least three were reported dead and several others wounded as result of firing and hand grenade attacks.

According to the Assistant Commissioner, the rescue teams have been sent to the crime scene. The attacked stirred a sense of fear across the area.

Majlis Wahdatul Muslimeen chief Allama Syed Sajid Ali Naqvi strongly condemned the attack. He demanded the government to immediately provide assistance to those injured and move them to safer place.

Sunday, June 1, 2014

Aaj TV on Hazara Community of Quetta

Saturday, May 31, 2014

YEH WATAN TUMHARA HAI

Friday, May 23, 2014

WHO’S KILLING PAKISTAN’S SHIA AND WHY?



C. Christine Fair
May 20, 2014 · in Analysis

According to the Human Rights Commission of Pakistan, in 2013 nearly 700 Shia were killed and more than 1,000 were injured in more than 200 sectarian terrorist attacks. Over 90 percent of those attacks occurred in Quetta, Karachi, Kangu, Parachinar, Islamabad and Rawalpindi. Since the beginning of 2000, nearly 4,000 persons have been killed and 6,800 injured (see figure below). Who is hunting Pakistan’s Shia and, most importantly, why? ....Continue Reading...

Monday, May 19, 2014

کوریا برای بامیان موزیم می سازد


زمان احمدی – بامیان
دوشنبه ٢٩ ثور ١٣٩٣ ساعت ١١:٢٥

مقام های محلی در ولایت بامیان در مرکز کشور از آغاز کار ساخت یک موزیم در آینده نزدیک در این ولایت خبر دادند.

بامیان از ولایت های باستانی در مرکز کشور است که آثار تاریخی و فرهنگی فراوانی را در خود جای داده است
آنان می گویند که این موزیم با هزینه بیش از پنج میلیون دالر از کمک های کشور کوریا در سه سال آینده ساخته می شود.
کبیر دادرس، رئیس اطلاعات و فرهنگ بامیان به خبرگزاری بخدی گفت:"با وجودیکه ساخت یک موزیم معیاری در بامیان، نزدیک به بیست میلیون دالر امریکایی هزینه بر می دارد، با آنهم بر اثر تلاش های این نهاد و وزارت اطلاعات و فرهنگ افغانستان، کشور کوریا حاضر شده تا برای ساخت یک موزیم و خانه فرهنگی در بامیان، 5.4 میلیون دالر امریکایی کمک کند."
دادرس افزود که کار ساخت این موزیم و خانه فرهنگی در بامیان، در سال جاری آغاز می شود و تا سه سال آینده تکمیل خواهد شد.
بامیان از ولایت های باستانی در مرکز کشور است که آثار تاریخی و فرهنگی فراوانی را در خود جای داده است.
دو مجسمه بودا موسوم به "صلصال و شمامه" که از قدیمی ترین آثار تاریخی "دوره بودیزم" درسطح جهان به شمار می رود در همین ولایت موقعیت دارد.
در بیش از یک دهه اخیر، تعدادی از باستان شناسان از جمله زمریالی طرزی، در کاوشگری هایی که در ساحات تاریخی این ولایت داشته اند، صدها قلم آثار باستانی را کشف کرده اند.
نبود موزیم در این ولایت باعث شده است که آثار کشف شده در مکان های غیر معیاری و بدور از دید گردشگران نگهداری شوند.
با این حال کبیر دادرس رئیس اطلاعات و فرهنگ بامیان گفته است که به نسبت نبود موزیم و محل مناسب برای نگهداری آثار باستانی بامیان، برخی از آثار باستانی کشف شده در سالهای اخیر در این ولایت، به موزیم کابل منتقل شده و نگهداری می شوند.
او تاکید کرد که با ساخت موزیم در بامیان، تمامی آثار باستانی مربوط به بامیان جمع آوری شده و در موزیم این ولایت نگهداری خواهد شد.
افزایش گردشگران با ساخت موزیم
وجود مناطق تاریخی و طبیعی باميان و مجسمه های بودا، بندامير، شهرضحاک، شهرغلغله، دره آجر،دره اژدر،دره فولادى، مجمسه کوچک بودادر دره ککرکوی شهر بربر از مناطق باستانی و تاریخی بامیان است که همه ساله جهانگردان زیادی رابه طرف خود می کشاند.
از جمله آثار تاریخی بامیان، هشت اثر به عنوان میراث های فرهنگی جهانی در موسسه علمی فرهنگی سازمان ملل(یونسکو) ثبت شده است.
گفته می شود که در صورت رشد توریزم در بامیان، درآمد ناشی ازجاذبه های گردشگری این ولایت می تواند هزینه های برخی از برنامه های بازسازی رااز نظر مالی تامین کند.
با این وجود، آگاهان امور می گویند که ساخت موزیم در بامیان و نمایش آثار باستانی این ولایت به گردشگران، می تواند میزان علاقه مندی آنان به بامیان را افزایش دهد. 
رضا ابراهیم، استاد رشته گردشگری در دانشگاه بامیان می گوید که وجود یک موزیم در این ولایت و به نمایش گذاشتن آثار تاریخی، باعث افزایش علاقه مندی گردشگران داخلی و خارجی به بامیان می شود و در نتیجه عواید داخلی این ولایت را افزایش خواهد داد.
آقای ابراهیم تاکید کرد که با ساخت موزیم در بامیان، از تخریب بیشتر صدها قلم از آثار باستانی این ولایت که در مکان های نامناسب نگهداری می شوند و در معرض خطر نابودی قرار دارند، جلوگیری می شود.
از سوی دیگر شماری از شهروندان بامیان می گویند که شمار زیادی از بناهای تاریخی این ولایت به دلیل بی توجهی مسوولان دولتی، درحال از بین رفتن است.
به گفته آنان، در سالهای اخیر، عوامل طبیعی نظیر ریزش باران وبرف آثار تاریخی بامیان را در معرض خطر قرار داده است.
درکنارسایرعوامل، تخریب آثار تاریخی بامیان "عامل سیاسی" نیز داشته است.
طالبان در زمان حاکمیتشان درافغانستان، به نشانه حمایت از "ارزشهای دینی"،دوبت تاریخی "صلصال و شمامه" بامیان را هدف حمله راکتی قرار دادندو بخش هایی از آن راتخریب کردند.
بااینوجود؛ بامیان، در یک و نیم دهه اخیر و پس از سرنگونی حکومت طالبان شاهد حضور صدها توریست داخلی وخارجی بوده است.
امنیت موجود در بامیان از عواملی خوانده شده که منجر به جذب توریست های داخلی و خارجی شده است.

Saturday, May 17, 2014

بامیان بعنوان مرکز تمدن فرهنگی کشورهای عضو سارک اعلام میشود

 وزارت اطلاعات و فرهنگ افغانستان می گوید، بامیان در سال 2015 به عنوان مرکز تمدن فرهنگی کشور های عضو سارک یا (سازمان همکاری های منطقوی جنوب آسیا ) اعلام می گردد.

بامیان یکی از ولایات مرکزی افغانستان است که با داشتن مناظر طبیعی، محلات و آبدات تاریخی اخیراً مورد توجهء کشور های (سارک) قرار گرفته است.
مسوولان وزارت اطلاعات و فرهنگ افغانستان می گویند، نماینده گان کشور های سارک، با مقامات این وزارت توافق کرده اند تا بامیان در سال 2015 میلادی به عنوان مرکز تمدن فرهنگی کشور های عضو سارک اعلام گردد.
جلال نورانی مشاور این وزارت به روز شنبه در صحبت با رادیو آزادی گفت، قرار است به همین مناسبت مراسم با شکوه در سال 2015 در بامیان برگزار شود:
" در سال 2015 یک محفل بین المللی بسیار با شکوه خواهیم داشت و در آن تمام کشور های آسیایی کشور های سارک و کشور های همجوار افغانستان خواهند بود و واضح است که نماینده ملل متحد، یونسکو و سایر نهاد های بین المللی در آنجا حضور خواهند داشت."
در حال حاضر هشت کشور هند، پاکستان، مالدیف، سریلانکا، بنگلادیش، نیپال، بوتان و افغانستان اعضای سازمان سارک را تشکیل می دهند.
افغانستان در سال 2007 میلادی عضویت این سازمان را بدست آورد.
اما پیش از این ولایت غزنی در سال 2007 میلادی از سوی سازمان علمی و فرهنگی کشور های اسلامی آیسیسکو به حیث مرکز تمدن جهان اسلام انتخاب و در سال 2013 رسماً نام گذاری گردید.
انتقاد های وجود دارند که حکومت برای بازسازی آبدات تاریخی و سایر مکان ها در ولایت غزنی کار های لازم را انجام نداده است.
این در حالیست که مسوولان وزارت اطلاعات و فرهنگ نیز گفته اند که حدود 1200 اثر و آبدهء تاریخی کشور در معرض نابودی قرار داشته و اگر به آن توجه صورت نگیرد از بین خواهند رفت.
برخی از کارشناسان با اشاره به اهمیت معرفی بامیان به عنوان مرکز تمدن فرهنگی کشور های جنوب آسیا تاکید می کند که باید کار های عملی در این ولایت بیشتر انجام شود.
حبیب الله رفیع نویسنده و عضو اکادمی علوم افغانستان در مورد گفت:
" اگر تنها به نام اکتفا کنیم نام برای ما چیزی نمی دهد، اگر عملاً در این راه جد جهد شود و بصورت واقعی همکاری ممالک جلب گردد در آنصورت برای گردش گری افغانستان بر حیثیت تاریخی افغانستان خصوصاً برای حیثیت تاریخی بامیان بسیار مفید خواهد بود."
به باور کارشناسان، تخریب مجسمه های بودا توسط طالبان در سال 2001 میلادی در ولایت بامیان صدمه بزرگ را به داشته های تاریخی این ولایت وارد کرد.
از سوی هم گزارش ها می رسانند که هنوز هم برخی آثار تاریخی و میراث فرهنگی در این ولایت در معرض خطر جدی نابودی قرار دارند.
کارشناسان با اشاره به اقدام اخیر وزارت اطلاعات و فرهنگ می گویند، هرگاه به بازسازی این آثار توجهء لازم صورت گیرد علاقه مندی سیاحین به ولایت بامیان بیشتر شده و بالای اقتصاد باشنده گان آن تاثیر مثبت می گذارد.
جاوید حسن زاده

Monday, May 12, 2014

Muzaffar Ali Tells Stories of Hazaras by Pictures


Thursday, April 24, 2014

فرقہ واریت میں 2090 افراد ہلاک، سزا کسی کو نہیں


ایوب ترین

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


آخری وقت اشاعت: جمعرات 24 اپريل 2014 ,‭ 20:37 GMT 01:37 PST


اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے کم ہے

حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سات برسوں میں ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں اب تک 2090 افراد مارے جا چکے ہیں لیکن حزب اختلاف نے ان اعداد و شمار کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔

سینٹ کا اجلاس بدھ کی شام کو ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔

وقفہ سوالات میں خاتون سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا ہے کہ سال 2008 سے رواں برس مارچ کے مہینے تک قبائلی علاقے میں 866، بلوچستان میں 737 ، سندھ میں 252، پنجاب میں 104، خیبر پختونخوا میں 22، گلگت بلتستان میں 103، دارالحکومت اسلام آباد میں 5 افراد فرقہ وارا نہ دہشت گردی کانشانہ بنے۔ جبکہ آزاد جموں کشمیر میں اس دوران فرقہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان واقعات کے الزام میں اب تک 173 افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔جن میں سے 26 کا تعلق پنجاب، 139 گلگت بلتستان اور آٹھ کا بلوچستان سے ہے۔ جبکہ سندھ، صوبہ خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور اسلام آباد سے کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔

2008 سے مارچ 2014

"قبائلی علاقے میں 866، بلوچستان میں 737 ، سندھ میں 252، پنجاب میں 104، خیبر پختونخوا میں 22، گلگت بلتستان میں 103، دارالحکومت اسلام آباد میں 5 افراد فرقہ وارا نہ دہشت گردی کانشانہ بنے۔ جبکہ آزاد جموں کشمیر میں اس دوران فرقہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔"

حکومتی رپورٹ

حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومتی اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کراچی، بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینٹر عبدالرؤف لالا نے کہا کہ صرف بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنے والے ہزارہ قبیلے اور شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد مذکورہ اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے اعداد و شمار کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے۔ تو آٹھ افراد کی گرفتاری حکومت کی ناکامی کا   ....Continue Reading....واضع ثبوت ہے۔

Sectarian violence: Over 2,000 people killed in 5 years, Interior Ministry tells Senate

By Irfan Ghauri
Published: April 23, 2014



Killings per district: Fata (867), Balochistan (737), Sindh (252), Punjab (104), G-B (103) and K-P (22). PHOTO: ONLINE/FILE

ISLAMABAD: The Senate was informed by the Interior Ministry on Wednesday that the monster of sectarianism had devoured at least 2,090 lives over past five years, with militancy hit Federally Administered Tribal Areas (FATA) on top with 867 killings.

The figures were revealed in a written reply from the ministry of interior during the question hour.

Balochistan, which has seen deadly attacks on the resident Shia Hazara community, witnessed 737 killings.

Sindh, where a number of doctors, professors religious leaders belonging to the their sect have been targeted in recent years, 252 were killed over sectarian differences between January 2008-January 2009.

Punjab, which saw some of the worst riots in the country last year following a clash of two groups in Rawalpindi on Ashura that resulted in a curfew, 104 people were killed in sectarian violence over five years.

Khyber-Pakhtunkhwa 22. Gilgit-Baltistan, which has belied its largely peaceful outlook with incidents of sectarian violence, saw 103 people falling victim to sectarian violence. Five people lost their lives in Islamabad in sectarian attacks.

The exact number will probably be a bit higher since the reply provided covered the period from January 2008 to January 2014.

Senators from different political parties contested the figures provided by the ministry and also asked the state minister about number of convictions of those who were arrested on charges of sectarian violence.

However, the minister did not answer that question, further irking the members.

Madrassas getting funding from aboard

The government also confirmed during Wednesday’s session that some seminaries were getting financial support from abroad.

“Some seminaries/madrassahs in the country are receiving financial support from foreign Islamic countries. The remittances are received through banking channels,” the interior ministry confirmed in its written reply to a question by Pakistan Peoples Partys Sugra Imam....Continue Reading....

Wednesday, April 23, 2014

Hazara Graveyard

Hazara Parkour: ARY News

Monday, April 14, 2014

Keeping the Flame of Art Alive in Balochistan

The Crowd: By Shazia Batool
Shazia Batool’s conversations – about Quetta, about the worsening situation and the burgeoning art scene – are filled with dramatic gasps and sharp intakes of breath but beneath her excitable exterior lies a steely resolve. This is evident in the stories she chooses to tell: How she wheeled herself into Quetta’s Serena Hotel and insisted that its managers let her exhibit her paintings; how, as a physically-handicapped person, she manages to live in an environment not exactly friendly to the disabled, how she migrated to neighbouring Iran with her mother but, after living there for two years, decided to return alone and resume her life in Quetta..............The Hazara community has its own initiatives. On the day I meet and speak with Batool, I visit one such community space. Amongst the mass of homes and shops and restaurants in crowded Mariabad, is a seemingly unassuming door with a small plaque that says, in a near-silent whisper, Sketch Club. The ‘club’ was started in 2008 by Fazil Mousavi, a respected elder of the community. For the very low fee of 1,000 rupees a month for each student, on the rooftop of a katcha house and surrounded by the panoramic view of mountains, local children are taught art. Some are being rigorously trained to sit the entrance exam for the NCA; others are much younger. I strike up conversation with a chirpy hijab-clad seven-year-old. Another young girl tells me how she protested to her family until they allowed her to start drawing. Yet another wants to go to Lahore and study miniature. As the sun starts making its lazy descent down the sky and the blinding light creates dark shadows, students sit around a still-life and studiously sketch. At the end of each year, the Sketch Club holds a student exhibition where the works are put up for sale. Mousavi believes that art should be accessible to all and the art pieces are thus priced accordingly — much of it ends up being bought. There used to be a local art gallery in Mariabad, a teacher at the Sketch Club tells me, but its owner shut shop and migrated to Australia.....Continue Reading.... 

Saturday, April 12, 2014




کوئٹہ میں دو ہزارہ شیعہ افراد فائرنگ میں ہلاک


محمد کاظم

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

آخری وقت اشاعت: اتوار 13 اپريل 2014 ,‭ 20:16 GMT 01:16 PST


پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افرادکو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق دونوں افراد کو ہفتے کی شام نامعلوم مسلح افراد نے سریاب روڈ کے علاقے میں واقع بس ٹرمینل پر ان افرا کو نشانہ بنایا۔

سریاب پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ فائرنگ سے ایک شخص جائے وقوعہ پر ہلاک ہوا جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔ زخمی شخص کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔

پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے دونوں افراد کا تعلق ہزارہ قبیلے سے ہے۔

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔

دوسری جانب ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے دونوں افرادکی ہلاکت کے واقعے کی مذمت کی ہے۔

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی بیان کے مطابق سریاب روڈ پر کراچی جانے والے دو ہزارہ مسافروں کو بس سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد ہلاک کیا گیا۔

Two Shia Hazaras gunned down in Quetta

SYED ALI SHAH

A police officer said the deceased were singled out from a passenger bus fired upon by the militants from a very close range. – File Photo
Published 2014-04-12 23:56:06

QUETTA: Armed militants killed two people of ethnic Shia Hazara community in Sariab road area of Quetta, the capital of volatile Balochistan province on Saturday night, police said.

Imran Qureshi, the Superintendent of Police Sariab Road told Dawn.com that armed militants singled out two members of Hazara community from a passenger bus and opened fire on them from a very close range.

He said one person was killed on the spot while the other succumbed to his wounds on his way to hospital. The attackers sped away on their motorcycles after the firing.

“The incident as an act of targeted killing,” Qureshi said. The passenger bus was preparing to leave for Karachi when intercepted by militants, he added.

Police and personnel of Frontier Corps (FC) reached the spot and launched an initial investigation into the incident.

“It is an act of sectarian terrorism,” police said.

The dead bodies of the victims were rushed to the Combined Military Hospital (CMH) for medico-legal formalities.

The incident took place four days after at least 17 people were killed in a blast at Sibi railway station in the province.

Quetta remained under the grip of sectarian attacks for last more than a decade. A large number of members of Hazara community have been killed in targeted killings and suicide attacks.

Quetta: Two Hazara Passengers were identified, dragged out of bus and shot dead on Saryab Road

Muhammad Nabi 

Jumma Khan 

11



Losing ground: 30,000 Hazaras fled Balochistan in five years

By Qaiser Butt
Published: April 12, 2014



Members of a Hazara community light candles for peace against sectarian attacks in Quetta February 15, 2014. PHOTO: REUTERS
QUETTA:

With a surge in violence in Balochistan, members of minority groups have increasingly sought shelter in other parts of the country. Nearly 30,000 members of the Hazara community have migrated in the last five years, according to Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) Vice Chairperson Tahir Hussain Khan.

Speaking with The Express Tribune, Khan said the flow of migration increased as nearly 1,000 members of the Hazara community have been killed in targeted attacks since 2009.

Khan, who is also president of the HRCP’s Balochistan chapter, added that more than 10,000 Hindus have also fled the province as abductions-for-ransom have become routine over the last three years here.

Members of the Hazara community leaving Quetta and other parts of the province comprise businessmen, highly educated workers and senior government officials, amongst others, he said. Discussing sectarian violence in the province, Khan warned, “This conflict can turn into a civil war if it is not addressed properly at this stage.”

The Hazara community has been confined to two localities in Quetta, he pointed out – a four-kilometre radius on Alamdar Road and an 11km area within Hazara Town – after the provincial government set up security checkpoints around these residential colonies.

“They are physically isolated from the rest of the city’s population,” he said. “They are not aware of how long they will continue to be confined in such a way.” He pointed to the growing presence of religious parties in the country as a possible reason for increasing sectarian conflict.

Within classrooms, Khan said school syllabi create rifts between students of different faiths and sects, particularly when religious extremist thought is inculcated in educational institutions.

Published in The Express Tribune, April 12th, 2014.

Thursday, March 20, 2014

The Leader of a banned organization ASWJ is threatening journalists in Quetta

اس تالاب میں سب ننگے ہیں



{ اس تالاب میں سب ننگے ہیں }

موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھی جائے تو پاکستانیوں کو سب سے زیادہ نقصان مذہبی دہشت گردی سے ہوا۔ کہی کہی پر قوم پرستی کے آڑ میں بھی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا مگر جس قدر مذہبی جنونیت سے پاکستانی قوم ، معاشرے اور مسقتبل کو نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور معاملے سے پہنچا ہو۔ 
پانچ سال تک اسلم رئیسانی نامی ذہنی مریض شخص حکومت کرتا رہا بلوچستان پر جسے سیاسی عذاب کا نام دیا جائے تو برا نا ہوگا۔ کافی عرصوں کے بعد بلوچستان کی قوم پرست اور مذہبیجماعتوں نے انتخابات میں حصہ لے لیا اور بلوچستان کو ایک تعلیم یافتہ ، جمہوری پسند اور مخلص وزیر اعلیٰ اور گورنر ملا ۔ اعتماد رائے سے ڈاکڑ مالک صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے اور اکثریت جماعتوں نے انکی تعریف بھی کی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
چند دنوں کی پہلے کی بعد ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ { اہل سنت و الجماعت } کے وفد نے ہمارے لبرل اور سیکولر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ۔ جہاں تک ملاقات کی بات ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ اوپر درجے کی سطح پر ان چیزوں کی ضرورت ہیں مگر کچھ دنوں پہلے
کالعدم مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک جلسہ منقعد ہوا کوئیٹہ میں جس میں کھلا کھلم کافر کافرشیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے ۔ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ اہل تشیع کو دھمکیاں دیتے رہے اور مستقبل قریب میں بھی تخریب کاری کروانے کا حلف اٹھا رہے تھے ۔
ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا کہ کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جنگوی کے جلسے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور احمد لیدھیانوی سیمت سب نے ملکر اس دھماکے کا ذمہ دار اہل تشیع{ہزارہ } قوم کو قرار دیا گیا اور انتقام لینے کی حامی بھری ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ انہی
کے برادر اسلامی دہشت گرد جماعت احرار الہند نے کروائی تھی ۔

خیر معاملہ ایسے ہی دب گیا جیسے باقی کے واقعات میں دب جاتا ہے مگر یہاں سوال اٹھاتا ہے ہمارے لبرل وزیر اعلیٰ پر جو بارہاں فرماں چکے ہے کہ بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائے گے۔ اگر معاملہ انکے علم میں نہیں تھا تو بعد میں کاروائی کیوں ہوئی ؟ ڈاکڑ مالک صاحب ایک روشن خیال انسان اور مخلص ہے اس میں کوئی شک نہیں اور مالک صاحب جگہ جگہ جمہوریت اور سیکولرزم پر تبصرہ اور لبرل ماحول بنانے کے حق میں بھی اظہار رائے کرتے ہیں مگر انکو ثابت کرنا ہوگی کہ بلوچستان اسلامی
شدت پسندوں کی جاگیر نہیں ۔ 
حسب ضرورت کالم کا اختتام ایک مصرے سے کر رہا ہوں۔

دکان شیشہ میں پتھر سجا کے بیھٹے ہے 
فقہیہ شہر کے بے سود کاروبار کی خیر { محسن نقوی 

Monday, March 17, 2014

کوئٹہ کلعدم سپاہ صحابہ کی کھلم کھلا شرانگیز تقاریر اور دهمکیاں

Sunday, March 16, 2014

AAKHIR QUUEE

Friday, March 14, 2014

بلوچستان: عسکری گروپوں کا نیا خفیہ اتحاد، تازہ حملے میں بارہ افراد ہلاک


کوئٹہ میں عسکریت پسندوں کے بم حملے میں کم از کم بارہ افراد ہلاک جبکہ پینتیس سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز ہی بلوچستان میں سرگرم عمل عسکری گروپوں نے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے نیا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں سُنی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی، ایرانی بلوچستان میں سر گرم عمل جیش العدل اور کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے ایک خفیہ اتحاد قائم کیا ہے، جسے ماہرین نے صوبے میں قیام امن کے لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا ہے۔

انٹیلی جنس حکام کی جانب سے حکومت کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں بد امنی میں ملوث ان کالعدم تنطیموں نے اپنے اہداف کے لئے قائم کئے گئے اسٹریٹیجک اتحاد میں نئے حملوں کی بھی منصوبہ بندی کی ہے جن کا مقصد بلوچستان میں قیام امن کے لئے ہونے والی ان تمام کوششوں کا ناکام بنا نا ہے جو کہ صوبائی حکو مت کی جانب سے اٹھائی گئی ہیں۔ دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کے بقول بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیمیں حکومتی بے حسی کا فائدہ اٹھا کر مزید منظم ہو رہی ہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’مرکزی حکومت بلوچستان کی طرف کوئی توجہ بالکل نہیں دی رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنے اوائل میں بلوچستان کے لئے اقدامات کی یقینی دہانی کروائی تھی لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا، اسی لئے علیحدگی پسند تنظیمیں اب مزید زور پکڑتی جا رہی ہیں۔‘‘

جنرل (ر ) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت مخالف بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں اور مذہبی شدت پسند گروپ صوبے میں انتشار پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے حکمت عملی تبدیل کی ہے،’’یہ مسلح گروپ بہت مضبوط ہو چکے ہیں اور نسبتاﹰ بلوچستان کی حکومت بہت کمزور ہے۔ اس لئے یہ صوبے میں جاری شورش سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان گروپوں کے بیرونی رابطے بھی ہیں اور جو پراکسی وار چل رہی ہے، ایران اور سعودی عرب کی، اس کے اثرات بھی پاکستان پر پڑ رہے ہیں ہیں۔‘‘

شدت پسند گروپوں کے اس نئے ا تحاد کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور آج کوئٹہ کے بارونق علاقے جناح روڈ پر سائنس کالج کے قریب شدت پسندوں کے ایک اور بم حملے میں 12 افراد ہلاک جبکہ چالیس افراد زخمی ہو ئے ہیں، جن میں بچے خواتین اور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔ دوسری طرف امن و مان کی بحالی کے لئے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں سکیورٹی کو بھی ہائی الرٹ کر د یا گیا ہے۔

Quetta Prince Road Blast in Pictures