Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Friday, June 29, 2012

دہشتگردوں سےروابط کی تحقیقات کا مطالبہ


آخری وقت اشاعت: ہفتہ 30 جون 2012 ,‭ 19:13 GMT 00:13 PST


پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد نے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض اہلکاروں یا بعض عناصر کے دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

کمیشن نے جمعہ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ کمیشن اس الزام یا دعوے کی صداقت یا سچائی کے بارے میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس الزام کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔

کوئٹہ میں شیعہ زائرین کی بس میں دھماکہ سے چودہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، انسانی حقوق کمیشن یعنی ایچ آر سی پی کے مطابق صرف رواں سال کے دوران بلوچستان میں ہلاک کیے جانے والے شیعہ حضرات کی تعداد ساٹھ سے زائد ہے۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قاتل کون ہیں کیونکہ ہر حملے کے ساتھ حملہ آوروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں سکیورٹی فورسز کی ہمدردی اور اعانت حاصل ہے۔

شیعہ زائرین کی بس کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا گیا ہے

انسانی حقوق کمیشن کی چیئرمین زہرہ یوسف کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں شیعہ زائرین کا قتل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد مذہب کی بنیاد پر شہریوں کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور ریاست کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتی یا ان ہلاکتوں کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ گزشتہ سال بلوچستان سے ایران جانے والے زائرین کی بس پر حملے کے بعد یہ یقین تھا کہ جب تک مجرموں کو پکڑا نہیں جاتا وہ ایک بار پھر ظلم ڈھائیں گے۔

کمیشن کے مطابق یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ایران جانے والے جن زائرین کو جمعرات کے روز ہدف بنایا گیا درحقیقت وہ کئی بسوں میں سوار تھے لیکن حکام نے انہیں ایک ہی بس میں جانے کے لیے کہا جس کے بعد انہیں نشانہ بنایا گیا۔

کمیشن نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بار پولیس کی ایک ٹیم بس کے ساتھ تھی اور جیسا کہ مستونگ کے حملے میں ہوا نہ تو اس حملے کو روکا جا سکا اور نہ ہی مجرموں کو پکڑا گیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ لوگ جو مارے گئے یا زخمی ہوئے اُنہیں نسبتاً جلدی ہسپتال پہنچایا گیا۔

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کی تفتیش کے دوران اس بات کی بھی تحقیقات کی جانی چاہیے کہ دہشت گردوں کی مدد اور پشت پناہی کون کر رہا ہے۔

حکومت کمیونٹی کی حالت زار کے بارے میں سوچ بچار کرے، اس فرقے کا منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل عام کھلم کھلا بربریت اور جارحیت ہے۔

ایچ آرسی پی کا کہنا ہے کہ کیا یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ ہزارہ فرقے سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان ملک چھوڑ کر چلے جانا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے وہ بعض اوقات ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں سفر کرنے کا خطرہ بھی مول لینے کے لیے تیار ہیں، ایسی ہی ایک کوشش میں ستر نوجوان انڈونیشیا میں اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔

کمیشن کو یقین ہے کہ جب تک قاتلوں کو پکڑا نہیں جاتا اور انہیں قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی پاکستان ایک ایسی جگہ میں 
تبدیل ہو جائے گا جہاں زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔

No comments:

Post a Comment