سنہ دو ہزار ایک میں افغانستان میں بامیان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی کے بعد دنیا بھر میں طالبان حکومت کی مذمت کی گئی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے ان مجسموں کو تعمیر نہ کرنے کے فیصلے نے ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے۔
طالبان کے رہنما ملا عمر نے اپنے دورِ اقتدار میں بتوں کے خلاف جنگ شروع کر رکھی تھی۔جسامت اور علامتی دونوں اعتبار سے ان کا سب سے بڑا نشانہ بامیان کے بدھا مجسمے تھے، جو ایک زمانے میں دنیا کے سب سے بڑے مجسمے تھے۔
ان میں سے ایک کی اونچائی پچپن میٹر تھی۔ انہیں وسطی افغانستان میں چھٹی صدی کے دوران ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔
جب دو ہزار تین میں طالبان کو معزول کر دیا گیا تو یونیسکو نے اس وادی کو عالمی ورثہ قرار دے دیا جس کے بعد دنیا بھر سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یہاں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔یہاں پہنچ کر انہیں صرف دو دیو ہیکل خالی غار ملے جو شکستہ مجسموں کے ٹکڑوں اور ان بارودی سرنگوں سے بھرے پڑے ہیں جو پھٹ نہیں سکی تھیں۔
اس وقت سے ماہرین ان ٹکڑوں کا جائزہ لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا انہیں پھر سے تعمیر کیا جائے یا نہیں۔
بامیان وادی بدھ مت کے مغربی پھیلاؤ کی آخری حد اور یہ گذشتہ پانچ سو برس میں اہم تجارتی مرکز رہ چکی ہے۔ یہ وادی مشرق و مغرب کے سنگم پر واقع تھی اسی لیے یہاں پائے جانے والے منفرد آثار میں یونانی، ترکی، ایرانی، چینی اور ہندوستانی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
گذشتہ برس یونیسکو نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بڑے مجسمے کو تعمیر کرنے کے لیے کافی ٹکڑے دستیاب نہیں، جب کہ چھوٹے مجسمےکی تعمیر ممکن ہے، لیکن یونیسکو کے مطابق ایسا ہونے کا امکان کم ہے۔
اس کے بجائے وہ جاپان اور اٹلی کی ٹیموں کے ساتھ مل کر چٹانوں کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ غاروں کی دیواروں پر بنی بقیہ تصاویر کو محفوظ رکھا جا سکے۔
اس علاقے کے لوگ افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں
تاہم آثارِقدیمہ کے تحفظ کی ایک جرمن تنظیم، انٹرنیشنل کونسل آن مانیومنٹس اینڈ سائٹس اب بھی کوشش کر رہی ہے کہ ان بدھا مجسموں کو ازسرِنو تعمیر کیا جائے۔
برٹ پریکسین تھالر اس تنظیم کے ساتھ دو ہزار چار سے وابستہ ہیں اور مجسمے کے بچے کھچے حصے محفوظ کرنے کی لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے بعض ٹکڑوں کا وزن چالیس ٹن کے قریب ہے۔
وہ ایک ایسے عمل میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے تحت کم سے کم نیا مواد استعمال کر کے ان ٹکڑوں کو جوڑا جا سکے۔ اس عمل کو ایناسٹائیلوسس کہا جاتا ہے۔
پریکسن تھالر کہتے ہیں ’یہ ایک ایسے معمے کو جوڑنے کے مترادف ہے جس کے کئی ٹکڑے غائب ہوں، تاہم جغرافیائی طریقے استعمال کر کے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ ٹکڑے پہلے کہاں تھے۔‘
یہ طریقہ ایتھنز میں پارتھینون اور ایکروپولس میں کامیابی سے برتا جا چکا ہے۔
ایک اور مسئلہ لاگت کا بھی ہے۔ صرف چھوٹے بدھ کو تعمیر کرنے پر لاکھوں ڈالر صرف ہوں گے، اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جہاں بنیادی انفراسٹرکچر مثلاً سڑکوں اور بجلی کا فقدان ہے۔ مزید برآں، اس مقصد کے لیے بڑی مقدار میں دھات درآمد کرنا پڑے گی جسے کابل سے پرخطر راستوں کے ذریعے لانا پڑے گا۔
’بامیان کے بدھا‘ نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر لیولن مورگن کہتے ہیں’افغانستان میں روزانہ حیران کن حد تک بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں۔ ان کے مقابلے پر یہ رقم سمندر میں قطرے کے مترادف ہو گی۔‘
بامیان بدھ
"بامیان پر آثارِقدیمہ کے تمام وسائل صرف کر دیے جاتے ہیں لیکن افغانستان میں حیرت انگیز آثار بکھرے پڑے ہیں۔"
لیولن مورگن
البتہ ڈاکٹر مورگن یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں اور بھی آثارِقدیمہ ہیں جن کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
’بامیان پر آثارِقدیمہ کے تمام وسائل صرف کر دیے جاتے ہیں لیکن افغانستان میں حیرت انگیز آثار بکھرے پڑے ہیں۔‘
اس علاقے میں رہنے والے لوگ اب بھی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ملک بھر میں آثارِ قدیمہ کی لوٹ مار بہت بڑا مسئلہ ہے، جنہیں پاکستان کی آرٹ مارکیٹ میں سمگل کر دیا جاتا ہے۔ مورگن کا خیال ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وسائل کو افغانستان کے قدیم نوادر کو بچانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بروئے کار لایا جائے۔
امریکی اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک آرٹیکل میں انہوں نے مغربی بامیان میں واقع قرون وسطیٰ کے زمانے کے ایک قلعے چہل برج کا ذکر کیا تھا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔
بامیان پر توجہ مرکوز ہونے سے یہاں کے لوگوں کے بارے میں آگاہی ہوئی ہے
وہ کہتے ہیں، ’کچھ وقت اورگزرنے دیں، پھر دیکھیں کہ غیرقانونی لوٹ مار، زلزلوں، اور موسمیاتی عوامل کے باعث بڑے سے بڑے سرگرم بت شکن کے ہاتھوں پھیلائی گئی تباہی سے کہیں زیادہ تباہی پھیلے گی۔‘
یونیسکو بھی انہی خطوط پر سوچتے ہوئے بامیان میں ایک عجائب گھر برائے امن بنا رہی ہے تاکہ افغانستان کے ثقافتی ورثے کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا جا سکے۔
وجہ جو بھی ہو، بامیان کے بدھوں نے عالمی توجہ حاصل کر رکھی ہے، اور ان کی تعمیر کے بارے میں دنیا بھر کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ، ماہرینِ تعمیرات، فن کاروں اور تاریخ دانوں کی طرف سے طرح طرح کے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مقامی آبادی اور افغانیوں کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال رکھنا اور انہیں اعتماد
میں لینا بھی ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment