آخری وقت اشاعت: پير 17 جون 2013 , 08:35 GMT 13:35 PST
پاکستان کے وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان نے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں سکیورٹی اداروں کا جتنا کنٹرول ہے کسی اور شہر میں نہیں تو پھر کوئٹہ کیوں بار بار دہشت گردی کا نشانہ بنتا ہے۔
انہوں نے یہ بات پیر کی صبح قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہی۔
پاکستان کی سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کے مطابق وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’ایک سوال انٹیلیجنس اور سکیورٹی اداروں سے ہے کہ کسی شہر میں اس سے زیادہ سکیورٹی اداروں کا گھیرا نہیں ہو سکتا جتنا کوئٹہ میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ بار بار کوئٹہ شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور وہ شہر میں جہاں چاہے جس طرح سے چاہے حدف کو نشانہ بناتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم ہیں تو پھر دہشت گرد کیسے کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے آئی جی کے گھر کے قریب دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دھماکے سے گورنر ہاؤس سمیت پورا علاقہ ہل گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر سکیورٹی ادارے ’ریڈ زون کا تحفظ نہیں کر سکتے تو حکومت سکیورٹی اداروں کو اور کیا دے گی۔‘
"ایک سوال انٹیلیجنس اور سکیورٹی اداروں سے ہے کہ کسی شہر میں اس سے زیادہ سکیورٹی اداروں کا گھیرا نہیں ہو سکتا جتنا کوئٹہ میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ بار بار کوئٹہ شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور وہ شہر میں جہاں چاہے جس طرح سے چاہے حدف کو نشانہ بناتے ہیں"
چوہدری نثارعلی خان
وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئٹہ میں بس اور بولان میڈیکل کمپلیکس پر حملوں میں چودہ طلبات چھ سولین اور سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 34 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ پکڑا گیا مشتبہ شخص حملہ آوروں کا ساتھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں بس میں خود کش دھماکہ ایک خاتون نے کیا تھا اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں چار عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں کو اس بات کا علم تھا کہ سینیئر افسران بولان میڈیکل کمپلیکس جائیں گے تو انہوں نے وہاں پوزیشن سنبھالی اور کارروائی کی۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ زیارت ریزیڈنسی پر حملے کے بارے میں سکیورٹی اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ زیارت ریزیڈنسی پر حملے کے معاملے میں دو سکیورٹی گارڈز کو انتظامیہ کو اس حادثے کے بارے میں فوراً مطلع نہ کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔
ان کا اصرار تھا کہ واردات کے بعد زیارت سے نکلنے کے راستے ایک یا دو ہی ہیں اور اگر بروقت ان راستوں کو بلاک کیا جاتا تو شاید حملہ آوروں کو پکڑا جاسکتا تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’یہ واقعہ ہونے کے بعد باہر جانے کے راستوں کو کیوں بلاک نہیں کیا گیا۔ اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ اس میں کوئی اندرونی ہاتھ تو نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے جس میں خفیہ ادارے بھی شامل ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم کسی چیز کو چھپائیں گے نہیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ ایوان میں پیش کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ زیارت بلوچستان کا پْرامن ترین علاقہ ہے جہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ 2008 تک زیارت ریزیڈنسی کی ذمہ داری گورنر بلوچستان کے پاس تھی اور 2008 میں اسے بلوچستان کی آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ریزیڈنسی کی حفاظت کے لیے جو نجی دو سکیورٹی گارڈ معمور کیے گئے تھے وہ در حقیقت غیر مسلحہ چوکیدار تھے جو حملے کی رات ریزیڈنسی میں موجود نہیں تھے بلکہ قریب کوارٹر میں تھے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ چوکیداروں نے بتایا کہ ریزیڈنسی میں پہلے دھماکے کے بعد جب وہ باہر نکلے تو تین سے چار آدمی ریزیڈنسی کی دیوار پلانگ کر بھاگ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب پولیس والا باہر نکلا تو اس کو عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
No comments:
Post a Comment