{ اس تالاب میں سب ننگے ہیں }
موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھی جائے تو پاکستانیوں کو سب سے زیادہ نقصان مذہبی دہشت گردی سے ہوا۔ کہی کہی پر قوم پرستی کے آڑ میں بھی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا مگر جس قدر مذہبی جنونیت سے پاکستانی قوم ، معاشرے اور مسقتبل کو نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور معاملے سے پہنچا ہو۔
پانچ سال تک اسلم رئیسانی نامی ذہنی مریض شخص حکومت کرتا رہا بلوچستان پر جسے سیاسی عذاب کا نام دیا جائے تو برا نا ہوگا۔ کافی عرصوں کے بعد بلوچستان کی قوم پرست اور مذہبیجماعتوں نے انتخابات میں حصہ لے لیا اور بلوچستان کو ایک تعلیم یافتہ ، جمہوری پسند اور مخلص وزیر اعلیٰ اور گورنر ملا ۔ اعتماد رائے سے ڈاکڑ مالک صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے اور اکثریت جماعتوں نے انکی تعریف بھی کی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
چند دنوں کی پہلے کی بعد ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ { اہل سنت و الجماعت } کے وفد نے ہمارے لبرل اور سیکولر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ۔ جہاں تک ملاقات کی بات ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ اوپر درجے کی سطح پر ان چیزوں کی ضرورت ہیں مگر کچھ دنوں پہلے
کالعدم مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک جلسہ منقعد ہوا کوئیٹہ میں جس میں کھلا کھلم کافر کافرشیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے ۔ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ اہل تشیع کو دھمکیاں دیتے رہے اور مستقبل قریب میں بھی تخریب کاری کروانے کا حلف اٹھا رہے تھے ۔
ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا کہ کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جنگوی کے جلسے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور احمد لیدھیانوی سیمت سب نے ملکر اس دھماکے کا ذمہ دار اہل تشیع{ہزارہ } قوم کو قرار دیا گیا اور انتقام لینے کی حامی بھری ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ انہی
کے برادر اسلامی دہشت گرد جماعت احرار الہند نے کروائی تھی ۔
خیر معاملہ ایسے ہی دب گیا جیسے باقی کے واقعات میں دب جاتا ہے مگر یہاں سوال اٹھاتا ہے ہمارے لبرل وزیر اعلیٰ پر جو بارہاں فرماں چکے ہے کہ بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائے گے۔ اگر معاملہ انکے علم میں نہیں تھا تو بعد میں کاروائی کیوں ہوئی ؟ ڈاکڑ مالک صاحب ایک روشن خیال انسان اور مخلص ہے اس میں کوئی شک نہیں اور مالک صاحب جگہ جگہ جمہوریت اور سیکولرزم پر تبصرہ اور لبرل ماحول بنانے کے حق میں بھی اظہار رائے کرتے ہیں مگر انکو ثابت کرنا ہوگی کہ بلوچستان اسلامی
شدت پسندوں کی جاگیر نہیں ۔
حسب ضرورت کالم کا اختتام ایک مصرے سے کر رہا ہوں۔
دکان شیشہ میں پتھر سجا کے بیھٹے ہے
فقہیہ شہر کے بے سود کاروبار کی خیر { محسن نقوی
No comments:
Post a Comment