Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Thursday, January 10, 2013

Mysterious genocide of Pakistan's Hazara community

Whatever the truth, and it's often difficult to tell in Pakistan, the international community needs to do more to highlight the plight of the peace-loving Hazara community

Pakistan's Hazara community has faced terrifying persecution

Ghaffar Hussain
On 10 January 2013 10:10

Life for minority communities in Pakistan has never been great. Drive-by shootings, bomb attacks, lynchings, and assassinations targeting members of religious and ethnic minorities are ubiquitous in the nuclear armed state, established in the name of Islam to protect Muslims.

The persecution of religious minorities such as Christians, Hindus, Shias, and Ahmedis often makes it into the international media and is discussed domestically, especially when major massacres occur. However, the on-going genocide being directed at the Hazara community in Pakistan seems to have attracted very little international media attention and even less domestic political attention. No-one seems to know what is going on and no-one seems to care.

The Hazara community in Pakistan is approximately 950,000 strong, with most living in the Baluchistan province. They are a highly visible ethnic minority as well as religious minority. They are largely Shia, speak a Persian dialect known as Dari, and have Central Asian features as opposed to South Asian.

In the past 10 years, there have been around 120 major attacks on members of the Hazara community which have resulted in around 800 deaths and over 1500 injuries. Though some attacks have targeted high-profile community members, around one-third of the victims have been children. In 2012 alone there were 56 attacks. A further 300 Hazaras have died trying to flee Pakistan for the safety of other countries, mainly Australia since it has an established Hazara community.

The more shocking aspect of this on-going genocide is that the Hazara community has no idea why it is being targeted or by whom. They are not calling for independence or autonomy, nor are they engaged in any political struggle. They are largely a peaceful people concerned with nothing more than earning a living and making a contribution to their country.... Continue Reading.... 

Wednesday, January 9, 2013

’پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ‘


شمائلہ جعفری

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


آخری وقت اشاعت: جمعرات 10 جنوری 2013 ,‭ 20:53 GMT 01:53 PST


مستونگ میں زائرین کی بسوں کو ایک کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے اور کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک ہو گئے

نذر عباس شیعہ زائرین کی اس بس کے کنڈیکٹر تھے جو تیس دسمبر کو صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔

نذر عباس کے خاندان کو اس واقعے کے کئی روز بعد اس کی لاش تک نہیں مل سکی۔

تیس دسمبر کو مستونگ میں زائرین کی بسوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں انیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں اکثریت شیعہ زائرین کی تھی۔

نذر عباس کی اہلیہ شمائلہ کہتی ہیں ’مدد تو ایک طرف ہمیں تو کوئی پوچھنے تک نہیں آیا نہ لاشیں مل رہی ہیں اور زخمیوں کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں۔حکومت کیا کر رہی ہے؟ شیعوں کی سختی آئی ہوئی ہے‘۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ واقعات کی خونی داستان میں نذرعباس اور ان کا خاندان محض ایک چھوٹا سا حوالہ ہیں۔

ملک میں نفرت کی بھینٹ چڑھنے والوں کی فہرست تو انتہائی طویل ہے اور اب اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

پاکستان میں سلامتی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دو ہزار بارہ کے دوران پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق سال دو ہزار بارہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اٹھاون فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

فرقہ وارانہ حملے


"ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے"


رپورٹ

رپورٹ میں چار علاقوں کو فرقہ واریت کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔

گذشتہ برس کراچی ننانوے حملوں کے ساتھ سرفہرست رہا جبکہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ نوعیت کے باون واقعات رپورٹ ہوئے۔

گلگت بلتستان میں بائیس اور کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ تشدد کے نو واقعات رونما ہوئے ۔

پاکستان انسیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق ان علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی مختلف وجوہات ہیں ۔

’کراچی میں مختلف گروہوں کے فرقوں کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا محرک ہے اور ان گروہوں کا تعلق قومی اور بین الاقوامی سطح کی تنظیموں کے ساتھ ہے تاہم کوئٹہ میں ہونے والوں کے حملوں میں مقامی سطح کے گروہ ملوث ہیں جن کی مقاصد کی نوعیت بھی خالصتاً میں مقامی ہے‘۔

’ گلگت بلتستان میں فرقوں کے درمیان ہم آہنگی رکھنے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم وہاں دو واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن سے وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ ایک کوہستان کا واقعہ اور دوسرا بابوسرکا۔ لیکن گلگت بلتستان میں بیرونی مداخلت حالات خراب کرنے کا سبب بنی‘۔

رپورٹ کے مطابق ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔

عامر رانا کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے وہ خواہ گلگت ہو کراچی بلوچستان یا ڈیرہ اسمعاعیل خان۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ گذشتہ دوبرس میں شیعہ گروہ بھی متحرک ہوئے ہیں اگرچہ ان کے پاس نہ تو وہ وسائل ہیں اور نہ ہی وہ صلاحیت۔ خاص طور پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انھوں نے ردعمل دکھایا ہے‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے: عامر رانا

ماہرین کا ماننا ہے کہ کراچی میں سکیورٹی ادارے فرقہ وارانہ حملوں کو روکنے کے لیے کچھ حد تک کردار ادا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جبکہ گگت بلتستان میں حکومتی سطح پر فرقوں کے مابین کشیدگی کم کروانے کے لیے سنجیدگی موجود ہے تاہم بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے مذہبی سیاسی اور انتظامی طور پر کبھی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب کہتے ہیں’میں اسے فرقہ وارانہ تشدد نہیں سمجھتا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس میں مخصوص اقلیتوں کو ٹارگٹ کرکے مارا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہیں ہے بلکہ منظم منصوبہ ہے‘۔

پاکستان نوے کی دہائی میں بھی فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وقتی طور پر سکیورٹی اداروں نے درعمل دکھایا آپریشن کیے گئے مذہبی اور سیاسی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات ہوئے جس سے صورتحال میں بہتری آئی تاہم فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مسقتل طور پر کسی بھی سطح پر کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے رابطہ کار زمان خان کہتے ہیں ’جنرل ضیا کے دور میں ہم نے یہاں مذہبی منافرت کا ایک ایجنڈا بنایا مخصوص فرقوں کے خلاف نفرت پیدا کی اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ایسے بہت سے گروہ جنہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے وہ بھی فرقہ وارانہ نفرت پھیلا رہے ہیں ۔ تاہم اب اس میں علاقائی اور بین الاقوامی نفرت بھی شامل 
ہو چکی ہے‘۔

Monday, January 7, 2013

DOCUMENTARY - The Boy Mir (2011)

Incidents of violence in Quetta claim three lives

DawnNews



Quetta police. — File Photo

QUETTA: Three people were killed and another three were injured in incidents of firing in various parts of Quetta, DawnNews reported on Monday.

According to the police, unknown gunmen opened fire on a taxi, killing one and injuring three others. The injured were shifted to the Central Military Hospital (CMH) in Quetta where the conditions of two were reported to be critical.

Separately, a man was shot dead when unknown gunmen opened fire on the Fatima Jinnah Road situated in the eastern Quetta.

In another incident, unknown assailants gunned down a man in Kuchlak bazaar on the outskirts of Quetta. The deceased was said to be a native of Balochiastan’s Loralai district.

کوئٹہ: اسپنی روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ، ایک شخص جاں بحق، 3 زخمی


January 07, 2013 - Updated 1311 PKT

کوئٹہ … کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے ٹیکسی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 3 افراد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ کا واقعہ کوئٹہ کے نواحی علاقے اسپنی روڈ پر پیش آیا جہاں موٹر سائیکل سواروں نے ایک ٹیکسی کار پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اس میں سوار ایک شخص جاں بحق جبکہ 3 افراد زخمی ہوگئے، جاں بحق شخص کی لاش اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیاگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ کے قریب ہی ایف سی کی چیک پوسٹ اور پولیس 
آفس موجود ہونے کے باوجود ملزمان با آسانی فرار ہوگئے۔ 




Friday, January 4, 2013

Violence is on the rise in Balochistan: Report

Published: January 3, 2013

Sectarian strife and targeted killings continue to claim more victims by the day. DESIGN: FAIZAN DAWOOD
ISLAMABAD: 

The past five years have been difficult for Balochistan according to statistics revealed by the home department. Violence in the province has claimed over 2,100 lives and left 3,845 injured in over 3,232 incidents of bomb blasts and rocket attacks in this period. Amidst rising sectarian strife and targeted killings, the government’s inability to deal with the situation appears more jarring than ever.

Throughout the province, sectarian killings remain the biggest challenge. From 2008 to 2012, 758 members of the Shia community were killed in 478 incidents. Of these, 338 victims belonged to the Hazara community, indicating that Hazaras remain the prime targets of these aggressions.

The province has become a base for a decade-long insurgency as well as a killing field for various sects. Banned outfit Lashkar-e-Jhangvi allegedly keeps targeting Shias throughout Balochistan. Accordingly, officials have beefed up safety measures from Quetta to Taftan and are even planning to hold meetings with Iranian authorities to discuss possible arrangements to facilitate the movement of Hazaras from Marriabad to Hazara Town and Hazar Ganji.

“The shia community, the Hazaras in particular, remains the prime target of violent groups in the province,” Balochistan Home Secretary Captain (retd) Akram Durrani told The Express Tribune when asked about these statistics. “We are struggling against militants, but the situation is not as bad as [what is] being reported.”

He added that the increasing trend of violence in Balochistan is alarming, regardless of the disparity between the reported numbers and the actual happenings on the ground.


The findings also uncover staggering ‘kill and dump’ statistics. Around 570 dead bodies have been found strewn throughout the province, with 370 of the victims belonging to the Baloch community and 89 to the Pashtun community. The rest remain unidentified to this day.

Further still, over 402 non-Baloch have been killed in 498 incidents, and over 486 injured in multiple attacks.

Not surprisingly, security personnel have also suffered great losses. As many as 340 Frontier Corps personnel and 380 policemen have lost their lives in the line of duty, and 508 security officials in total have been left wounded.

Analysts say that despite the staggering figures, the provincial government is yet to review regulations pertaining to the movement of pilgrims under the Travel Agency Act of 1976. In one instance, police decided to refer the investigation of ‘sensitive cases’ to the Crime Investigation Department after the arrest of alleged terrorist Sher Dil of Lashkar-e-Jhangvi, also known as Babu, in a bid to curb violence in Balochistan.

Sectarian target killings

Number of incidents: 478
Number of Hazaras killed: 338

Total number of members of the Shia community killed: 758

Loss of security personnel

Frontier Corps personnel killed: 340

Policemen killed: 380

Security officials wounded: 508

‘Settlers’/ Non-Baloch target killings

Number of incidents: 498

Number of those killed: 402

Number of those injured: 486

‘Kill and dump’

Total number of bodies found in sacks: 570

Number of victims from the Baloch community: 370

Number of victims from the Pushtun community: 89

Unidentified victims: 111

Published in The Express Tribune, January 3rd, 2013.

Tuesday, January 1, 2013

Portuguese billionaire adds works inspired by Bamiyan Buddhas to his vast sculpture park

José Berardo plans to add sculpture by Fernando Botero and Tony Cragg among others to Quinta dos Loridos north of Lisbon

By Gareth Harris. Web only
Published online: 01 January 2013
José Berardo's sculpture was initially created in homage to the sixth-century Bamiyan Buddhas, destroyed by the Taliban in 2001

The Portuguese billionaire José Berardo has added an homage to the sixth-century Bamiyan Buddhas destroyed by the Taliban in 2001 to his sculpture park in Quinta dos Loridos, north of Lisbon. “We have not recreated the Buddhas themselves, rather we commissioned 6,000 tons of stone sculptures from [Chinese] artisans in the Shijiazhuang area,” says Zaid Abdali, the project manager, adding “6,000 tons being the estimated weight of the lost sculptures”. There are 1,217 sculptures dotted around the 35-hectare park, which has opened in phases since 2006. There is even an army of 45 terracotta warriors based on the real one discovered protecting the tomb of the Chinese emperor Qin Shi Huangdi.

On 26 February 2001, the leader of the then Taliban, Mullah Mohammed Omar, issued an order calling for the destruction of “all statues of non-Islamic shrines located in the different parts of the Islamic Emirate of Afghanistan”. Within five days the Taliban said it had destroyed two-thirds of the country’s statues, including the Bamiyan Valley’s colossal Buddhas. Berardo, the chairman of the investment company Metalgest, says he was “profoundly shocked” by the iconoclasm, prompting the ambitious sculpture project. 

A new area dedicated to Modern and contemporary sculpture, due to open by this summer, will feature gargantuan works by Fernando Botero (Male Torso, 1992), Tony Cragg (Line of Thought, 2006) and Danny Lane (Stairway, 2005). 

Lynn Chadwick’s stainless steel sculpture Ace of Diamonds III, 2003, and Zadok Ben-David’s bronze female figure Looking Back, 2005, also due to go on display. They were bought in 2007 by the collector from the Cass Sculpture Foundation, a charitable trust based in Goodwood in the south of England. Wilfred Cass, the charity’s co-founder, told The Art Newspaper in March 2007 that at the time, the number of works sold to Berardo was the largest single purchase ever made from the foundation by a foreign collector. Berardo’s acquisition budget for the park is undisclosed.