Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Wednesday, January 9, 2013

’پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ‘


شمائلہ جعفری

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


آخری وقت اشاعت: جمعرات 10 جنوری 2013 ,‭ 20:53 GMT 01:53 PST


مستونگ میں زائرین کی بسوں کو ایک کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے اور کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک ہو گئے

نذر عباس شیعہ زائرین کی اس بس کے کنڈیکٹر تھے جو تیس دسمبر کو صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔

نذر عباس کے خاندان کو اس واقعے کے کئی روز بعد اس کی لاش تک نہیں مل سکی۔

تیس دسمبر کو مستونگ میں زائرین کی بسوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں انیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں اکثریت شیعہ زائرین کی تھی۔

نذر عباس کی اہلیہ شمائلہ کہتی ہیں ’مدد تو ایک طرف ہمیں تو کوئی پوچھنے تک نہیں آیا نہ لاشیں مل رہی ہیں اور زخمیوں کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں۔حکومت کیا کر رہی ہے؟ شیعوں کی سختی آئی ہوئی ہے‘۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ واقعات کی خونی داستان میں نذرعباس اور ان کا خاندان محض ایک چھوٹا سا حوالہ ہیں۔

ملک میں نفرت کی بھینٹ چڑھنے والوں کی فہرست تو انتہائی طویل ہے اور اب اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

پاکستان میں سلامتی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دو ہزار بارہ کے دوران پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق سال دو ہزار بارہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اٹھاون فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

فرقہ وارانہ حملے


"ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے"


رپورٹ

رپورٹ میں چار علاقوں کو فرقہ واریت کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔

گذشتہ برس کراچی ننانوے حملوں کے ساتھ سرفہرست رہا جبکہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ نوعیت کے باون واقعات رپورٹ ہوئے۔

گلگت بلتستان میں بائیس اور کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ تشدد کے نو واقعات رونما ہوئے ۔

پاکستان انسیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق ان علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی مختلف وجوہات ہیں ۔

’کراچی میں مختلف گروہوں کے فرقوں کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا محرک ہے اور ان گروہوں کا تعلق قومی اور بین الاقوامی سطح کی تنظیموں کے ساتھ ہے تاہم کوئٹہ میں ہونے والوں کے حملوں میں مقامی سطح کے گروہ ملوث ہیں جن کی مقاصد کی نوعیت بھی خالصتاً میں مقامی ہے‘۔

’ گلگت بلتستان میں فرقوں کے درمیان ہم آہنگی رکھنے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم وہاں دو واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن سے وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ ایک کوہستان کا واقعہ اور دوسرا بابوسرکا۔ لیکن گلگت بلتستان میں بیرونی مداخلت حالات خراب کرنے کا سبب بنی‘۔

رپورٹ کے مطابق ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔

عامر رانا کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے وہ خواہ گلگت ہو کراچی بلوچستان یا ڈیرہ اسمعاعیل خان۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ گذشتہ دوبرس میں شیعہ گروہ بھی متحرک ہوئے ہیں اگرچہ ان کے پاس نہ تو وہ وسائل ہیں اور نہ ہی وہ صلاحیت۔ خاص طور پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انھوں نے ردعمل دکھایا ہے‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے: عامر رانا

ماہرین کا ماننا ہے کہ کراچی میں سکیورٹی ادارے فرقہ وارانہ حملوں کو روکنے کے لیے کچھ حد تک کردار ادا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جبکہ گگت بلتستان میں حکومتی سطح پر فرقوں کے مابین کشیدگی کم کروانے کے لیے سنجیدگی موجود ہے تاہم بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے مذہبی سیاسی اور انتظامی طور پر کبھی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب کہتے ہیں’میں اسے فرقہ وارانہ تشدد نہیں سمجھتا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس میں مخصوص اقلیتوں کو ٹارگٹ کرکے مارا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہیں ہے بلکہ منظم منصوبہ ہے‘۔

پاکستان نوے کی دہائی میں بھی فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وقتی طور پر سکیورٹی اداروں نے درعمل دکھایا آپریشن کیے گئے مذہبی اور سیاسی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات ہوئے جس سے صورتحال میں بہتری آئی تاہم فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مسقتل طور پر کسی بھی سطح پر کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے رابطہ کار زمان خان کہتے ہیں ’جنرل ضیا کے دور میں ہم نے یہاں مذہبی منافرت کا ایک ایجنڈا بنایا مخصوص فرقوں کے خلاف نفرت پیدا کی اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ایسے بہت سے گروہ جنہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے وہ بھی فرقہ وارانہ نفرت پھیلا رہے ہیں ۔ تاہم اب اس میں علاقائی اور بین الاقوامی نفرت بھی شامل 
ہو چکی ہے‘۔

No comments:

Post a Comment