آخری وقت اشاعت: جمعرات 10 جنوری 2013 , 17:47 GMT 22:47 PST
کوئٹہ میں دوپہر کو ہونے والا دھماکہ مصروف مرکزی علاقے میں ہوا تھا۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تین مختلف دھماکوں میں پچاس سے زائد افراد ہلاک جبکہ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
شام کے بعد علمدار روڈ پرہونے والے دو بم دھماکوں میں اڑتیس افراد ہلاک جبکہ اسی سے زائد زخمی ہیں۔
بلوچستان کے ہوم سیکرٹری اکبر حسین درانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان دھماکوں کی اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ پہلے دھماکے کے بعد جب امدادی کارکن اور میڈیا کے نمائندے جائے حادثہ پر پہنچے تو ایک اور دھماکہ ہوا جس میں مزید ہلاکتیں ہوئیں۔
ان دو دھماکوں میں اب تک اڑتیس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک نجی چینل کا کیمرہ مین عمران شیخ اور خبر رساں ادارے این این آئی کے کیمرہ مین اقبال بھی شامل ہے جبکہ اسی چینل کے رپورٹر اور ایک اہلکار شدید زخمی ہیں۔
اس کے علاوہ اسی دھماکے میں فلاحی ادارے ایدھی کے چار امدادی کارکن بھی ہلاک ہو گئے جو امدادی کارروائیوں کے لیے جائے حادثہ پر پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی ایمبولینسوں کو بھی نقصان پہنچا۔
زخمیوں میں پولیس کے تین اہلکار بھی شامل ہیں جن میں ایس پی خالد مسعود بھی شامل ہیں جن کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ علمدار روڈ پر واقع ایک سنوکر کلب میں ہوا اور دھماکے کے بعد علاقے کی بجلی منقطع ہو گئی جس کی وجہ سے بہت غیر یقینی صورتحال ہے۔
اس سے قبل شہر کے مرکزی علاقے میں میزان چوک پر ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک اور چونتیس سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک ایف سی کا اہلکار جبکہ دو سول ملازمین بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں میں ایف سی کے دس اہلکار شامل ہیں۔
کوئٹہ کے سی سی پی او زبیر محمود نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کر تے ہوئے بتایا کہ گیارہ افراد ہلاک اور ستائیس زخمی ہو ئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اس دھماکے کا ہدف ایک ایس پی کی گاڑی تھی اور یہ دھماکہ ایف سی کی ایک چوکی کے قریب ہوا جہاں ایک گاڑی کے نیچے ایک ٹائمر ڈیوائس لگا کر دھماکہ کیا گیا۔
پولیس زرائع کے مطابق اس دھماکے کے لیے پچیس سے تیس کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
اس دھماکے کی زمہ داری یونائٹیڈ بلوچ آرمی نے قبل کر لی ہے۔
دھماکے کے نتیجے میں قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
اس سے قبل انتیس دسمبر 2012 کو کوئٹہ ہی میں پولیس کی ایک گاڑی پر حملے میں چار اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور یہ حملہ کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس کے علاقے غوث آباد میں ہوا تھا۔
اس حملے میں پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت تین اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہوگیا تھا۔
اس سے صرف دو روز قبل ستائیس دسمبر 2012 کو کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن ہی کے علاقے میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں ایک خفیہ ایجنسی کے دو اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
پولیس کے ذرائع کے مطابق اس طرح کے حملوں میں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں اب تک ساڑھے چار سو
سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment