Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Thursday, January 10, 2013

Bomb rocks Quetta; 12 killed, 40 injured

January 10, 2013 - Updated 1551 PKT
From Web Edition



QUETTA: At least twelve people including two children and a FC personal were killed while 40 others sustained injuries as a bomb explosion rocked Bacha Khan Chowk here on Thursday, hospital sources said.

A congested market is located at the site of the incident and the explosion took place during peak hours.

According to reports, the target of the attack was an FC checkpost. Several vehicles including a vehicle of law enforcement agency, nearby shops and food stalls were badly damaged in the explosion.

Rescue teams after reaching the site of the incident shifted injured people to hospitals where emergency was imposed.

Bomb disposal squad collected the evidences from the site of the incident. It said timer device was used for the explosion which carried almost 20 to 25 kilograms of explosive material.

The bomb was planted under the car, the squad added.

Two back-to-back blasts hit Quetta

January 10, 2013 - Updated 2058 PKT
From Web Edition




QUETTA: Terrorism has revisited Quetta in the same day as two bomb blasts were reported from two different parts of the city Thursday evening, Geo News reported.

Sources told Geo News the first blast was reported from Rehmattullah Chowk on Alamdar Road, whereas the second one which struck the same area came minutes after the first one.

The blasts left eight people injured, however no fatalities have been reported so far.

"The second bomb went off by the time media, rescue, and law enforcement officials reached the spot" sources said.

Geo News team which rushed to the site to cover the first blast narrowly escaped the second one.

Mysterious genocide of Pakistan's Hazara community

Whatever the truth, and it's often difficult to tell in Pakistan, the international community needs to do more to highlight the plight of the peace-loving Hazara community

Pakistan's Hazara community has faced terrifying persecution

Ghaffar Hussain
On 10 January 2013 10:10

Life for minority communities in Pakistan has never been great. Drive-by shootings, bomb attacks, lynchings, and assassinations targeting members of religious and ethnic minorities are ubiquitous in the nuclear armed state, established in the name of Islam to protect Muslims.

The persecution of religious minorities such as Christians, Hindus, Shias, and Ahmedis often makes it into the international media and is discussed domestically, especially when major massacres occur. However, the on-going genocide being directed at the Hazara community in Pakistan seems to have attracted very little international media attention and even less domestic political attention. No-one seems to know what is going on and no-one seems to care.

The Hazara community in Pakistan is approximately 950,000 strong, with most living in the Baluchistan province. They are a highly visible ethnic minority as well as religious minority. They are largely Shia, speak a Persian dialect known as Dari, and have Central Asian features as opposed to South Asian.

In the past 10 years, there have been around 120 major attacks on members of the Hazara community which have resulted in around 800 deaths and over 1500 injuries. Though some attacks have targeted high-profile community members, around one-third of the victims have been children. In 2012 alone there were 56 attacks. A further 300 Hazaras have died trying to flee Pakistan for the safety of other countries, mainly Australia since it has an established Hazara community.

The more shocking aspect of this on-going genocide is that the Hazara community has no idea why it is being targeted or by whom. They are not calling for independence or autonomy, nor are they engaged in any political struggle. They are largely a peaceful people concerned with nothing more than earning a living and making a contribution to their country.... Continue Reading.... 

Wednesday, January 9, 2013

’پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ‘


شمائلہ جعفری

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


آخری وقت اشاعت: جمعرات 10 جنوری 2013 ,‭ 20:53 GMT 01:53 PST


مستونگ میں زائرین کی بسوں کو ایک کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے اور کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک ہو گئے

نذر عباس شیعہ زائرین کی اس بس کے کنڈیکٹر تھے جو تیس دسمبر کو صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔

نذر عباس کے خاندان کو اس واقعے کے کئی روز بعد اس کی لاش تک نہیں مل سکی۔

تیس دسمبر کو مستونگ میں زائرین کی بسوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں انیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں اکثریت شیعہ زائرین کی تھی۔

نذر عباس کی اہلیہ شمائلہ کہتی ہیں ’مدد تو ایک طرف ہمیں تو کوئی پوچھنے تک نہیں آیا نہ لاشیں مل رہی ہیں اور زخمیوں کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں۔حکومت کیا کر رہی ہے؟ شیعوں کی سختی آئی ہوئی ہے‘۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ واقعات کی خونی داستان میں نذرعباس اور ان کا خاندان محض ایک چھوٹا سا حوالہ ہیں۔

ملک میں نفرت کی بھینٹ چڑھنے والوں کی فہرست تو انتہائی طویل ہے اور اب اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

پاکستان میں سلامتی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دو ہزار بارہ کے دوران پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق سال دو ہزار بارہ میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اٹھاون فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

فرقہ وارانہ حملے


"ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے"


رپورٹ

رپورٹ میں چار علاقوں کو فرقہ واریت کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔

گذشتہ برس کراچی ننانوے حملوں کے ساتھ سرفہرست رہا جبکہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ نوعیت کے باون واقعات رپورٹ ہوئے۔

گلگت بلتستان میں بائیس اور کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ تشدد کے نو واقعات رونما ہوئے ۔

پاکستان انسیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق ان علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی مختلف وجوہات ہیں ۔

’کراچی میں مختلف گروہوں کے فرقوں کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا محرک ہے اور ان گروہوں کا تعلق قومی اور بین الاقوامی سطح کی تنظیموں کے ساتھ ہے تاہم کوئٹہ میں ہونے والوں کے حملوں میں مقامی سطح کے گروہ ملوث ہیں جن کی مقاصد کی نوعیت بھی خالصتاً میں مقامی ہے‘۔

’ گلگت بلتستان میں فرقوں کے درمیان ہم آہنگی رکھنے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم وہاں دو واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن سے وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ ایک کوہستان کا واقعہ اور دوسرا بابوسرکا۔ لیکن گلگت بلتستان میں بیرونی مداخلت حالات خراب کرنے کا سبب بنی‘۔

رپورٹ کے مطابق ستر فیصد سے زائد فرقہ وارانہ حملے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہوئے جبکہ بیس فیصد میں اہلسنت والجماعت کے کارکن اور راہنما نشانہ بنے۔ تاہم سب سے زیادہ قیامت کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر ڈھائی گئی جن کے ایک سو بتیس افراد اپنی فرقہ وارانہ شناخت کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔

عامر رانا کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے وہ خواہ گلگت ہو کراچی بلوچستان یا ڈیرہ اسمعاعیل خان۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ گذشتہ دوبرس میں شیعہ گروہ بھی متحرک ہوئے ہیں اگرچہ ان کے پاس نہ تو وہ وسائل ہیں اور نہ ہی وہ صلاحیت۔ خاص طور پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انھوں نے ردعمل دکھایا ہے‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ واریت کا سب سے زیادہ شکار شیعہ برادری ہے: عامر رانا

ماہرین کا ماننا ہے کہ کراچی میں سکیورٹی ادارے فرقہ وارانہ حملوں کو روکنے کے لیے کچھ حد تک کردار ادا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جبکہ گگت بلتستان میں حکومتی سطح پر فرقوں کے مابین کشیدگی کم کروانے کے لیے سنجیدگی موجود ہے تاہم بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے مذہبی سیاسی اور انتظامی طور پر کبھی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب کہتے ہیں’میں اسے فرقہ وارانہ تشدد نہیں سمجھتا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس میں مخصوص اقلیتوں کو ٹارگٹ کرکے مارا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہیں ہے بلکہ منظم منصوبہ ہے‘۔

پاکستان نوے کی دہائی میں بھی فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وقتی طور پر سکیورٹی اداروں نے درعمل دکھایا آپریشن کیے گئے مذہبی اور سیاسی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات ہوئے جس سے صورتحال میں بہتری آئی تاہم فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مسقتل طور پر کسی بھی سطح پر کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے رابطہ کار زمان خان کہتے ہیں ’جنرل ضیا کے دور میں ہم نے یہاں مذہبی منافرت کا ایک ایجنڈا بنایا مخصوص فرقوں کے خلاف نفرت پیدا کی اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ایسے بہت سے گروہ جنہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے وہ بھی فرقہ وارانہ نفرت پھیلا رہے ہیں ۔ تاہم اب اس میں علاقائی اور بین الاقوامی نفرت بھی شامل 
ہو چکی ہے‘۔

Monday, January 7, 2013

DOCUMENTARY - The Boy Mir (2011)

Incidents of violence in Quetta claim three lives

DawnNews



Quetta police. — File Photo

QUETTA: Three people were killed and another three were injured in incidents of firing in various parts of Quetta, DawnNews reported on Monday.

According to the police, unknown gunmen opened fire on a taxi, killing one and injuring three others. The injured were shifted to the Central Military Hospital (CMH) in Quetta where the conditions of two were reported to be critical.

Separately, a man was shot dead when unknown gunmen opened fire on the Fatima Jinnah Road situated in the eastern Quetta.

In another incident, unknown assailants gunned down a man in Kuchlak bazaar on the outskirts of Quetta. The deceased was said to be a native of Balochiastan’s Loralai district.

کوئٹہ: اسپنی روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ، ایک شخص جاں بحق، 3 زخمی


January 07, 2013 - Updated 1311 PKT

کوئٹہ … کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے ٹیکسی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 3 افراد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ کا واقعہ کوئٹہ کے نواحی علاقے اسپنی روڈ پر پیش آیا جہاں موٹر سائیکل سواروں نے ایک ٹیکسی کار پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اس میں سوار ایک شخص جاں بحق جبکہ 3 افراد زخمی ہوگئے، جاں بحق شخص کی لاش اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیاگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ کے قریب ہی ایف سی کی چیک پوسٹ اور پولیس 
آفس موجود ہونے کے باوجود ملزمان با آسانی فرار ہوگئے۔