Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Thursday, March 20, 2014

The Leader of a banned organization ASWJ is threatening journalists in Quetta

اس تالاب میں سب ننگے ہیں



{ اس تالاب میں سب ننگے ہیں }

موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھی جائے تو پاکستانیوں کو سب سے زیادہ نقصان مذہبی دہشت گردی سے ہوا۔ کہی کہی پر قوم پرستی کے آڑ میں بھی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا مگر جس قدر مذہبی جنونیت سے پاکستانی قوم ، معاشرے اور مسقتبل کو نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور معاملے سے پہنچا ہو۔ 
پانچ سال تک اسلم رئیسانی نامی ذہنی مریض شخص حکومت کرتا رہا بلوچستان پر جسے سیاسی عذاب کا نام دیا جائے تو برا نا ہوگا۔ کافی عرصوں کے بعد بلوچستان کی قوم پرست اور مذہبیجماعتوں نے انتخابات میں حصہ لے لیا اور بلوچستان کو ایک تعلیم یافتہ ، جمہوری پسند اور مخلص وزیر اعلیٰ اور گورنر ملا ۔ اعتماد رائے سے ڈاکڑ مالک صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے اور اکثریت جماعتوں نے انکی تعریف بھی کی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
چند دنوں کی پہلے کی بعد ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ { اہل سنت و الجماعت } کے وفد نے ہمارے لبرل اور سیکولر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ۔ جہاں تک ملاقات کی بات ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ اوپر درجے کی سطح پر ان چیزوں کی ضرورت ہیں مگر کچھ دنوں پہلے
کالعدم مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک جلسہ منقعد ہوا کوئیٹہ میں جس میں کھلا کھلم کافر کافرشیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے ۔ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ اہل تشیع کو دھمکیاں دیتے رہے اور مستقبل قریب میں بھی تخریب کاری کروانے کا حلف اٹھا رہے تھے ۔
ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا کہ کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جنگوی کے جلسے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور احمد لیدھیانوی سیمت سب نے ملکر اس دھماکے کا ذمہ دار اہل تشیع{ہزارہ } قوم کو قرار دیا گیا اور انتقام لینے کی حامی بھری ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ انہی
کے برادر اسلامی دہشت گرد جماعت احرار الہند نے کروائی تھی ۔

خیر معاملہ ایسے ہی دب گیا جیسے باقی کے واقعات میں دب جاتا ہے مگر یہاں سوال اٹھاتا ہے ہمارے لبرل وزیر اعلیٰ پر جو بارہاں فرماں چکے ہے کہ بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائے گے۔ اگر معاملہ انکے علم میں نہیں تھا تو بعد میں کاروائی کیوں ہوئی ؟ ڈاکڑ مالک صاحب ایک روشن خیال انسان اور مخلص ہے اس میں کوئی شک نہیں اور مالک صاحب جگہ جگہ جمہوریت اور سیکولرزم پر تبصرہ اور لبرل ماحول بنانے کے حق میں بھی اظہار رائے کرتے ہیں مگر انکو ثابت کرنا ہوگی کہ بلوچستان اسلامی
شدت پسندوں کی جاگیر نہیں ۔ 
حسب ضرورت کالم کا اختتام ایک مصرے سے کر رہا ہوں۔

دکان شیشہ میں پتھر سجا کے بیھٹے ہے 
فقہیہ شہر کے بے سود کاروبار کی خیر { محسن نقوی 

Monday, March 17, 2014

کوئٹہ کلعدم سپاہ صحابہ کی کھلم کھلا شرانگیز تقاریر اور دهمکیاں

Sunday, March 16, 2014

AAKHIR QUUEE

Friday, March 14, 2014

بلوچستان: عسکری گروپوں کا نیا خفیہ اتحاد، تازہ حملے میں بارہ افراد ہلاک


کوئٹہ میں عسکریت پسندوں کے بم حملے میں کم از کم بارہ افراد ہلاک جبکہ پینتیس سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز ہی بلوچستان میں سرگرم عمل عسکری گروپوں نے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے نیا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں سُنی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی، ایرانی بلوچستان میں سر گرم عمل جیش العدل اور کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے ایک خفیہ اتحاد قائم کیا ہے، جسے ماہرین نے صوبے میں قیام امن کے لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا ہے۔

انٹیلی جنس حکام کی جانب سے حکومت کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں بد امنی میں ملوث ان کالعدم تنطیموں نے اپنے اہداف کے لئے قائم کئے گئے اسٹریٹیجک اتحاد میں نئے حملوں کی بھی منصوبہ بندی کی ہے جن کا مقصد بلوچستان میں قیام امن کے لئے ہونے والی ان تمام کوششوں کا ناکام بنا نا ہے جو کہ صوبائی حکو مت کی جانب سے اٹھائی گئی ہیں۔ دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کے بقول بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیمیں حکومتی بے حسی کا فائدہ اٹھا کر مزید منظم ہو رہی ہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’مرکزی حکومت بلوچستان کی طرف کوئی توجہ بالکل نہیں دی رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنے اوائل میں بلوچستان کے لئے اقدامات کی یقینی دہانی کروائی تھی لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا، اسی لئے علیحدگی پسند تنظیمیں اب مزید زور پکڑتی جا رہی ہیں۔‘‘

جنرل (ر ) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت مخالف بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں اور مذہبی شدت پسند گروپ صوبے میں انتشار پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے حکمت عملی تبدیل کی ہے،’’یہ مسلح گروپ بہت مضبوط ہو چکے ہیں اور نسبتاﹰ بلوچستان کی حکومت بہت کمزور ہے۔ اس لئے یہ صوبے میں جاری شورش سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان گروپوں کے بیرونی رابطے بھی ہیں اور جو پراکسی وار چل رہی ہے، ایران اور سعودی عرب کی، اس کے اثرات بھی پاکستان پر پڑ رہے ہیں ہیں۔‘‘

شدت پسند گروپوں کے اس نئے ا تحاد کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور آج کوئٹہ کے بارونق علاقے جناح روڈ پر سائنس کالج کے قریب شدت پسندوں کے ایک اور بم حملے میں 12 افراد ہلاک جبکہ چالیس افراد زخمی ہو ئے ہیں، جن میں بچے خواتین اور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔ دوسری طرف امن و مان کی بحالی کے لئے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں سکیورٹی کو بھی ہائی الرٹ کر د یا گیا ہے۔

Quetta Prince Road Blast in Pictures