Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Saturday, April 12, 2014

Quetta: Two Hazara Passengers were identified, dragged out of bus and shot dead on Saryab Road

Muhammad Nabi 

Jumma Khan 

11



Losing ground: 30,000 Hazaras fled Balochistan in five years

By Qaiser Butt
Published: April 12, 2014



Members of a Hazara community light candles for peace against sectarian attacks in Quetta February 15, 2014. PHOTO: REUTERS
QUETTA:

With a surge in violence in Balochistan, members of minority groups have increasingly sought shelter in other parts of the country. Nearly 30,000 members of the Hazara community have migrated in the last five years, according to Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) Vice Chairperson Tahir Hussain Khan.

Speaking with The Express Tribune, Khan said the flow of migration increased as nearly 1,000 members of the Hazara community have been killed in targeted attacks since 2009.

Khan, who is also president of the HRCP’s Balochistan chapter, added that more than 10,000 Hindus have also fled the province as abductions-for-ransom have become routine over the last three years here.

Members of the Hazara community leaving Quetta and other parts of the province comprise businessmen, highly educated workers and senior government officials, amongst others, he said. Discussing sectarian violence in the province, Khan warned, “This conflict can turn into a civil war if it is not addressed properly at this stage.”

The Hazara community has been confined to two localities in Quetta, he pointed out – a four-kilometre radius on Alamdar Road and an 11km area within Hazara Town – after the provincial government set up security checkpoints around these residential colonies.

“They are physically isolated from the rest of the city’s population,” he said. “They are not aware of how long they will continue to be confined in such a way.” He pointed to the growing presence of religious parties in the country as a possible reason for increasing sectarian conflict.

Within classrooms, Khan said school syllabi create rifts between students of different faiths and sects, particularly when religious extremist thought is inculcated in educational institutions.

Published in The Express Tribune, April 12th, 2014.

Thursday, March 20, 2014

The Leader of a banned organization ASWJ is threatening journalists in Quetta

اس تالاب میں سب ننگے ہیں



{ اس تالاب میں سب ننگے ہیں }

موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھی جائے تو پاکستانیوں کو سب سے زیادہ نقصان مذہبی دہشت گردی سے ہوا۔ کہی کہی پر قوم پرستی کے آڑ میں بھی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا مگر جس قدر مذہبی جنونیت سے پاکستانی قوم ، معاشرے اور مسقتبل کو نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور معاملے سے پہنچا ہو۔ 
پانچ سال تک اسلم رئیسانی نامی ذہنی مریض شخص حکومت کرتا رہا بلوچستان پر جسے سیاسی عذاب کا نام دیا جائے تو برا نا ہوگا۔ کافی عرصوں کے بعد بلوچستان کی قوم پرست اور مذہبیجماعتوں نے انتخابات میں حصہ لے لیا اور بلوچستان کو ایک تعلیم یافتہ ، جمہوری پسند اور مخلص وزیر اعلیٰ اور گورنر ملا ۔ اعتماد رائے سے ڈاکڑ مالک صاحب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے اور اکثریت جماعتوں نے انکی تعریف بھی کی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
چند دنوں کی پہلے کی بعد ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ { اہل سنت و الجماعت } کے وفد نے ہمارے لبرل اور سیکولر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ۔ جہاں تک ملاقات کی بات ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ اوپر درجے کی سطح پر ان چیزوں کی ضرورت ہیں مگر کچھ دنوں پہلے
کالعدم مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک جلسہ منقعد ہوا کوئیٹہ میں جس میں کھلا کھلم کافر کافرشیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے ۔ نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ اہل تشیع کو دھمکیاں دیتے رہے اور مستقبل قریب میں بھی تخریب کاری کروانے کا حلف اٹھا رہے تھے ۔
ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوا کہ کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جنگوی کے جلسے کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور احمد لیدھیانوی سیمت سب نے ملکر اس دھماکے کا ذمہ دار اہل تشیع{ہزارہ } قوم کو قرار دیا گیا اور انتقام لینے کی حامی بھری ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ دھماکہ انہی
کے برادر اسلامی دہشت گرد جماعت احرار الہند نے کروائی تھی ۔

خیر معاملہ ایسے ہی دب گیا جیسے باقی کے واقعات میں دب جاتا ہے مگر یہاں سوال اٹھاتا ہے ہمارے لبرل وزیر اعلیٰ پر جو بارہاں فرماں چکے ہے کہ بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائے گے۔ اگر معاملہ انکے علم میں نہیں تھا تو بعد میں کاروائی کیوں ہوئی ؟ ڈاکڑ مالک صاحب ایک روشن خیال انسان اور مخلص ہے اس میں کوئی شک نہیں اور مالک صاحب جگہ جگہ جمہوریت اور سیکولرزم پر تبصرہ اور لبرل ماحول بنانے کے حق میں بھی اظہار رائے کرتے ہیں مگر انکو ثابت کرنا ہوگی کہ بلوچستان اسلامی
شدت پسندوں کی جاگیر نہیں ۔ 
حسب ضرورت کالم کا اختتام ایک مصرے سے کر رہا ہوں۔

دکان شیشہ میں پتھر سجا کے بیھٹے ہے 
فقہیہ شہر کے بے سود کاروبار کی خیر { محسن نقوی 

Monday, March 17, 2014

کوئٹہ کلعدم سپاہ صحابہ کی کھلم کھلا شرانگیز تقاریر اور دهمکیاں