Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, April 15, 2019

عمران خان کی کوئٹہ جانے میں ہچکچاہٹ: کیا کوئی دباؤ ہے؟


کوئٹہ میں ہزارہ برداری کے احتجاج کے باوجود وزیرِاعظم عمران خان غم زدہ افراد سے ملاقات نہیں کرسکے، جس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہورہی ہے اور ناقدین کہہ رہے ہیں کہ وہ اندورنی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے کوئٹہ نہیں جا رہے۔


اس حوالے سے نہ صرف سول سوسائٹی کے افراد خان صاحب پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی ان پر تنقید کے نشتر چلارہا ہے۔ واضح رہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہزارگنج کی سبزی مارکیٹ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان ان کو گارنٹی دیں کے اب ان کی برادری پر کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ عمران خان نے حالیہ مہینوں میں اندرون سندھ کے دورے کئے ہیں۔ ان دوروں کے مقاصد سیاسی تھے۔ ملک میں کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عمران خان اگر سیاسی جلسوں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں توغم زدہ افراد کے لیے کیوں نہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی کارکن فرزانہ باری کے خیال میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کی طرف ہمارے معاشرے کی ایک عمومی بے حسی ہے۔ اس لیے سیاست دان بھی انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ’’ہمارے معاشرے میں سیاست دان یہ سوچتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی سے کمیونٹی ہے، اس لیے ان کی طرف سیاست دانوں کا رویہ بے حسی والا ہے۔ لیکن عمران خان کا وہاں نہ جانا اس بات کا غماز ہے کہ ریاست کے طاقت ور حلقے بھی یہی چاہتے ہیں کہ خان صاحب وہاں نہیں جائیں کیونکہ ہزارہ قبیلے کے افراد بہت غصے میں ہیں۔ بہر حال یہ ایک افسوناک بات ہے کہ انہوںنے اب تک کوئٹہ کا دورہ نہیں کیا۔‘‘

VOA Urdu Coverage of the day 4th of the sit-in protest


کوئٹہ : وزیر مملکت برائے داخلہ جناب شہریار آفریدی صاحب کی کوئٹہ آمد


Quetta: State Minister for Interior Sheharyar Afridi's News Conference


کوئٹہ، وزیر داخلہ شہر یار آفریدی سانحہ ہزار گنجی کی شہدا کی فاتحہ خوانی کےلیے ہزارہ ٹاون پہنچ گئے۔


مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کادوران پریس کانفرنس وفاقی وزیر داخلہ شہریار آفریدی سے شیعہ نسل کشی پر احتجاج


ہزارہ قبیلے کا ہزار گنجی حملے پر احتجاج: ’صوبائی حکومت کے پاس اختیارات نہیں ان سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں‘



محمد کاظم  
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


ماہ جبین کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی ہزار گنجی سبزی منڈی میں تین روز قبل ہونے والے خودکش حملے سے کچھ خاندانوں کی دنیا ہی اجڑ گئی۔

ہزارہ ٹاؤن کی ساتویں جماعت کی طالبہ ماہ جبین کا خاندان بھی انہی میں شامل ہے۔

اپریل کی 12 تاریخ کو سبزی منڈی میں ہونے والے خود کش حملے میں ان کے والد ہلاک ہو گئے۔ 35 سالہ علی آغا پھل فروش تھے جو کہ اپنے چھ بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔

ایران میں محنت مزدوری کرنے والے علی آغا چھ ماہ قبل وہاں کی کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کوئٹہ لوٹ آئے۔ایران سے واپسی پر انھوں نے ایک ریڑھی پر ہزارہ ٹاؤن میں پھل فروخت کرنے کا کام شروع کیا تھا۔

علی آغا کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے مزید پڑھیے




ماہ جبین نے بتایا کہ ان کے والد روزی روٹی کمانے کے لیے علی الصبح نکلتے تھے، لیکن ’جمعے کے روز چائے پیئے بغیر ایسے گئے کہ واپس نہیں آئے‘ اور وہ اپنے والد کا ہاتھ بھی نہ چوم سکیں۔

ماہ جبین نے بتایا کہ علی آغا اپنی دونوں بیٹیوں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر یا جج بنیں