کوئٹہ میں ہزارہ برداری کے احتجاج کے باوجود وزیرِاعظم عمران خان غم زدہ افراد سے ملاقات نہیں کرسکے، جس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہورہی ہے اور ناقدین کہہ رہے ہیں کہ وہ اندورنی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے کوئٹہ نہیں جا رہے۔
اس حوالے سے نہ صرف سول سوسائٹی کے افراد خان صاحب پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی ان پر تنقید کے نشتر چلارہا ہے۔ واضح رہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہزارگنج کی سبزی مارکیٹ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان ان کو گارنٹی دیں کے اب ان کی برادری پر کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے حالیہ مہینوں میں اندرون سندھ کے دورے کئے ہیں۔ ان دوروں کے مقاصد سیاسی تھے۔ ملک میں کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عمران خان اگر سیاسی جلسوں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں توغم زدہ افراد کے لیے کیوں نہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی کارکن فرزانہ باری کے خیال میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کی طرف ہمارے معاشرے کی ایک عمومی بے حسی ہے۔ اس لیے سیاست دان بھی انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ’’ہمارے معاشرے میں سیاست دان یہ سوچتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی سے کمیونٹی ہے، اس لیے ان کی طرف سیاست دانوں کا رویہ بے حسی والا ہے۔ لیکن عمران خان کا وہاں نہ جانا اس بات کا غماز ہے کہ ریاست کے طاقت ور حلقے بھی یہی چاہتے ہیں کہ خان صاحب وہاں نہیں جائیں کیونکہ ہزارہ قبیلے کے افراد بہت غصے میں ہیں۔ بہر حال یہ ایک افسوناک بات ہے کہ انہوںنے اب تک کوئٹہ کا دورہ نہیں کیا۔‘‘