Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, December 19, 2011

انڈونیشیا سانحہ: پچپن افراد کا تعلق کوئٹہ سے

آخری وقت اشاعت: پير 19 دسمبر 2011 ,‭ 16:03 GMT 21:03 PST

تین روز قبل انڈونیشیا میں کشتی سمندر میں الٹنے کے باعث دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے پچپن افراد کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء نے حکومت سے پاکستانی شہریوں کی لاشیں وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تین روز قبل انڈونیشا سے ایک مسافر کشتی دو سو پچاس افراد کو لے کر آسٹریلیا جارہی تھی کہ راستے میں خراب موسم کے باعث سمندر میں الٹ گئی اور اس میں سوار دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔
ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان، افغانستان ، ایران اور عراق سے تھا جو غیر قانونی طریقے سے آسٹریلیا جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کشتی میں سوار ستر افراد کا تعلق کوئٹہ سے تھا جن میں پندرہ کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ پچپن ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کا تعلق شیعہ مسلک اور ہزارہ قبیلے سے ہے۔
کوئٹہ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے وفاقی حکومت سے ان کے رشتہ داروں کی لاشوں کو پاکستان لانے کامطالبہ کیا ہے۔ لواحقین کےمطابق جب سے کشتی الٹنے کی اطلاع آئی ہے ان کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
بلوچستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طریقے سے آسٹریلیا اور یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے میں نامساہد حالات کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اس بارے میں ایک شہری نے کہا کہ یہاں کوئی ادارہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف کاروائی نہیں کرتا۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ اپنے گھربار فروخت کر کے اچھے مستقبل کی تلاش میں یہاں سے آسٹریلیا جانے کے لیے ایجنٹوں کو فی کس دس لاکھ روپے تک دیتے ہیں۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بلوچستان کی تحفظِ عزاداری کونسل کے صدر رحیم جعفری کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں شیعہ اور ہزارہ قبیلہ کے لوگوں کو جس تیزی سے ٹارگٹ کیا جارہا اس وجہ سے لوگ جان بچانے کی خاطر آسٹریلیا اور دیگر یورپی ممالک جانے کے لیے یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تاہم ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیِر تعلیم جان علی چنگیزی نے انسانی سمگلنگ کو ایک غیرقانونی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بھی غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے خاندان اوراس ملک کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان میں شیعہ اور ہزارہ برادری کو تحفظ حاصل نہیں ہے لیکن جب موت آتی ہے تو کہیں بھی انسان محفوظ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ دو سال قبل بھی انڈویشا سے آسٹریلیا جاتے ہوئے ایک کشتی سمندر میں الٹ گئی تھی جس میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے چھبیس افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن آج تک اکثر کی لاشیں ورثاء کو نہیں ملی ہیں۔

BBC URDU

No comments:

Post a Comment