Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Wednesday, December 21, 2011

’کشتی الٹنے کا سانحہ توجہ کا متقاضی‘

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے انڈونیشیا میں کشتی الٹنے کے نتیجے میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے کم از کم پچپن نوجوانوں کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے ان نوجوانوں کو غیرقانونی طور پر کشتی پر سوار کرایا۔
حقوق انسانی کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حادثہ کا شکار ہونے والی کشتی میں پچپن افراد سوار تھے جن میں ایک سو ستّر پاکستانی شہری تھے۔
اسی بارے میں
انڈونیشیا سانحہ: پچپن افراد کا تعلق کوئٹہ سے
انسانی حقوق کمیشن نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مرنے اور زندہ بچ جانے والے مسافروں سے متعلق معلومات کے حصول میں ان کے اہل خانہ کی فوری مدد کریں اور ان وجوہات کا سدباب کریں جن کے باعث ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق’ہزارہ کمیونٹی کے نوجوانوں نے جس طرح سنگین خطرہ مول لیتے ہوئے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اس سے بلوچستان میں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
تنظیم کے مطابق دیگر مسافروں جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، بیروزگار تھے اور اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش میں ملک چھوڑ رہے ہیں اور چند تاجر جو صوبے، بالخصوص کوئٹہ میں اغواء برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں یہاں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
بلوچستان کے حالات
"ہزارہ کمیونٹی کے نوجوانوں نے جس طرح سنگین خطرہ مول لیتے ہوئے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اس سے بلوچستان میں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے"
ایچ آر سی پی
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ کشتی کے عملے نے تقریباً ایک سو ستّر پاکستانیوں اور دیگر ممالک کے اسّی افراد کو اس وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیا جب کشتی ایک شدید طوفان میں الٹ گئی۔
اس واقعے میں ہزارہ کمیونٹی کے کم از کم پچپن افراد ہلاک اور دیگر درجنوں پاکستانی لاپتہ ہیں۔
کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ’حکومت، بلوچستان کے معاملات پر سنجیدگی سے تفصیلی نظر ڈالے اور ان اسباب کا خاتمہ کرے جن کے باعث نوجوان ظلم، عدم تحفظ ارو غربت سے بچنے کے لیے سنگین خطرات مول لے کر وطن چھوڑنے پر مجبور رہے ہیں۔‘
تنظیم کے مطابق حکومت کو ان لوگوں کی بھی شناخت کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے جنہوں نے کشتی پر سوار مسافروں کو غیر قانونی طریقے سے بین الاقوامی سرحدیں پار کروائیں اور ان کی موت کا سبب بنے۔
’تمام شہریوں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنے فرض کا ادارک کرتے ہوئے، حکومت کو فی الفور ہزارہ برادری پر ہونے والے ظلم کے سدباب کی راہیں بھی نکالنی چاہیے۔‘
اس کے علاوہ تنظیم نے متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ انڈونیشیا کے سمندر میں یہ نوجوان کیسے پہنچے، حکومت کو فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کو اپنے پیاروں سے متعلق معلومات کی فراہمی ممکن بنانی چاہیے جب کہ زندہ بچ جانے والوں کی مدد کرنی چاہیے اور لاشوں کو وطن واپس لانے کا انتظام کرنا چاہیے۔

BBC URDU

No comments:

Post a Comment