Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Monday, December 13, 2010

بلوچستان:’تعلیم کا مستقبل خطرے میں‘

 

’بلوچستان میں تعلیم تنازعات کے پیچ پھنس کر رہ گئی ہے‘
حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان مسلح جنگجؤ صوبے میں تعینات اساتذہ اور تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائیاں فوری طور پر بند کریں کیونکہ ان کارروائیوں بلوچ طالب علموں کا نقصان ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی مشکلات کے حوالے اپنی ایک رپورٹ میں تنظیم نے کہا ہے کہ جنوری سنہ 2008 سے اکتوبر سنہ 2010 کے دوران بلوچستان میں بائیس اساتذہ اور دیگر تدریسی عملہ مختلف حملوں میں مارا گیا ہے۔
کلِک تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لیے کلک کریں
چالیس صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ پیر کو جاری کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں بلوچستان میں کام کرنے والے اساتذہ، طلبہ، حملوں کا شکار بننے والے افراد کے لواحقین اور حکومتی عہدیداران سے بات کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ کے جنوبی ایشیا کے لیے محقق علی دایان حسن کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں اس وقت تعلیم دینا یا حاصل کرنا اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’مسلح گروہوں کی پاکستانی ریاست کے خلاف شکایات اس بات کا جواز نہیں کہ وہ اساتذہ کو قتل کرتے پھریں۔اساتذہ کو مار کر، طلباء کو نقصان پہنچا کر اور سکولوں کو نشانہ بنا کر یہ جنگجو صرف بلوچستان کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں‘۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 2008 میں اس صورتحال کے سامنے آنے کے بعد سے دو سو سے زائد اساتذہ اور پروفیسرز یا تو صوبے کے نسبتاً محفوظ مقامات پر اپنا تبادلہ کروا چکے ہیں یا پھر انہوں نے صوبہ ہی چھوڑ دیا ہے۔یہی نہیں بلکہ مزید دو سو اساتذہ اپنے تبادلے کے لیے سرگرم ہیں۔
بلوچستان میں اس وقت تعلیم دینا یا حاصل کرنا اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
علی دایان حسن
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں تعلیم تنازعات کے بیچ پھنس کر رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ علیحدگی پسند مسلح بلوچ قوم پرست پنجابیوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شیعہ آبادی مسلح سنّی گروہوں کا نشانہ ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ بلوچستان میں ہر شعبۂ زندگی کے افراد ان گروہوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً ان کا نشانہ ہیں کیونکہ وہاں انہیں ریاست کا نمائندہ اور فوج کے جبر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
News Source: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/12/101213_hrw_baluchistan_education_zs.shtml

No comments:

Post a Comment