سجاد حسین چنگیزی
آخری وقت اشاعت: پير 9 جولائ 2012 , 15:41 GMT 20:41 PST
ہزارہ شیعہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے
علی عباس جلالپوری کی کتاب میں ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کا ایک لطیفہ ہے ۔ ارے صاحب، یہودی فرائیڈ با لکل کافر ہے اور جنت میں بھی نہیں جائے گا (خیر جنت جانے کا اُس کافر کو چنداں شوق بھی نہیں)۔ جلالپوری صاحب سے بھی آپ کو پرخاش سہی لیکن لطیفہ سننے میں کیا حرج ہے؟
کہتے ہیں کسی زمانے میں، کسی علاقے میں کوئی قبیلہ آباد تھا جن کی وجہ شہرت اُ ن کی عدالت پسندی ، قانون پرستی اور قانون کا بے لچک نفاذ تھا۔ قانون پر عمل درآمد اُن میں اس قدر سختی سے رائج تھا کہ قبیلے کے سردار کی ذات بھی اٰس بےلچک اور بلا مصلحت نفاذ سے مبرا نہیں تھی۔ اب ہوا یہ کہ ایک دن میاں لوہار نے ایک بندہ خدا کا خون کر دیا۔سو اجلاس ہوا، کمیٹی بیٹھی، اور جیسا کہ متوقع تھا، اتفاق ِ رائے سے لوہار کو سزائے موت سنا دی گئی اور لوہار کو پھانسی دینے کے لیے ایک مخصوص دن کا انتخاب کیا گیا۔
اتفا ق دیکھئے کے جن دنوں میاں لوہار جیل کی کو ٹھڑی میں اپنی پھانسی کا انتظار کر رہے تھے، اطلاع موصول ہوئی کہ ایک اور قبیلہ حملے کی تیاری میں مصروف ہے اور عنقریب اِس قبیلے پر دھاوا بول دے گا۔
مزید پتہ چلا کی میاں لوہا ر قبیلے کے واحد لوہار رہ گئے تھے ۔ قبیلے کے سب بڑے بوڑھے ، مُلّا ، قاضی، فوجی سب ہی بڑے پریشان ہوئے ۔ ایک طرف عزّت و عصمت، قانون کی پاسداری کا سوال جو قبیلے کی امتیازی صفت اور وجہ نیک نامی تھی اور دوسری طرف جنگ کے خطرے کے پیش ِ نظر واحد لوہار کی ضرورت، جس نے تلوار ، نیزے ، بھالے اور خنجر ڈھالنے تھے۔ سب شش و پنج میں تھے کہ کیا کیا جائے؟ نظریۂ ضرورت کا سب کو شدّت سے احساس ہوا۔ لیکن قبیلے میں عقلمند لوگوں کی کمی نہ تھی سو دوبارہ مُلّا ، قاضی ، فوجی اور سردار سر جوڑ کر بیٹھے، طویل گفت و شنید ہوئی اور گھنٹوں کے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ قبیلے میں صرف ایک لوہار ہے جبکہ چار درزی ہیں اور پھانسی اور قانون پر عمل در آمد بھی ضروری ہے۔ لہٰذا میاں لوہار کو چھوڑ کر ایک درزی کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
جب جب نظریۂ ضرورت کی بات چلتی ہے، جب قانون پرستی، آزاد عدلیہ اور بے لچک انصاف کا چرچا ہونے لگتا ہے، تب تب مجھے یہ لطیفہ یاد آتا ہے۔
جب جب جیلوں سے ’لوہاروں‘ کو کبھی پارلیمنٹ، کبھی کسی ضروری جگہ مذاکرات اور اہم گفت و شنید کے لیے ہیلی کاپٹر میں لے جایا جاتا ہے، نہ جانے کیوں میں الماری کے اندر سے مٹّی تلے دبے جلالپوری صاحب کی اِس کتاب کو جھاڑ پُونچھ کر نکالتا ہوں۔ شاید اس لیے نہیں کہ کافر اور یہودی فرائیڈ کے اس لطیفہ سے کسی ’مومن مسلمان‘ کو کوئی نتیجہ مل سکتا ہے بلکہ ہزارہ شیعہ دوستوں سے میری بات چیت ہوتی رہتی ہے جو آج کل حیرت، وحشت اور مایوسی کے مِلے جُلے احساسات کے ساتھ بار بار پوچھتے ہیں ’آخر ہمارا قصور کیا ہے؟‘
میں صرف انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ میاں لوہار نہیں، آپ ایک ’درزی‘ ہیں!
No comments:
Post a Comment