ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
آخری وقت اشاعت: جمعرات 11 اپريل 2013 , 00:59 GMT 05:59 PST
شہر میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے جگہ جگہ ایسی رکاوٹیں نظر آتی ہیں
’اب یہاں سکون نہیں ہے، گھر سےآدمی نہیں نکل سکتا کیونکہ یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی مار نہ دے‘۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مسلم آْباد کے رہائشی ساٹھ سالہ عبدالغفار نے بازار سے سبزی خرید کر گھر جاتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا۔
عبدالغفار کے مطابق وہ انیس سو تیراسی میں جب کوئٹہ منتقل ہوئے تھے تو اس وقت یہاں کوئی خوف و خطرہ نہیں تھا۔
’ایک وقت تھا جب کوئٹہ ایک پرامن اور پرفضا شہر کے طور پر جانا جاتا تھا، یہاں لوگ تفریح اور موسم گرما گذارنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اب یہ نوگو ایریا بن گیا ہے، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات، دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ اس شہر کی نئی پہچان ہیں‘۔
بلوچستان میں محرومیاں، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل تو کئی سال سے تھے لیکن سنہ دو ہزار چھ میں صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب ایک فوجی آپریشن میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی ہلاک ہوگئے اور نفرت اور انتقام کی آگ پورے صوبے میں پھیل گئی۔
اس نقصان کا خمیازہ یہاں کے پنجابی آبادکاروں کو بھگتنا پڑا، مسلم آباد کی گلیاں پہلے اس قدر ویران نہ تھیں، صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد اسی مسلم آباد کے رہائشی تھے، جو ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد کئی پنجابی اپنا کاروبار اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، جو بچ گئے ہیں ان کی زندگی محدود ہوگئی۔
پولیس کے ریٹائرڈ سب انسپکٹر عبدالغفار کے مطابق پنجاب کے وہ لوگ جن کا کوئی ٹھکانہ تھا وہ تو واپس پنجاب چلے گئے، جن کا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں وہ بس یہاں ہی اپنا وقت گذار رہے ہیں۔
باچا خان چوک کبھی پرہجوم تجارتی مرکز تھا، جہاں پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے مقامی سوغات خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن بم دھماکوں کے بعد یہاں خوف کا سایہ اور ایف سی فورس کا پہرا رہتا ہے۔
ماضی میں خشک میوہ جات کی مارکیٹ خریداروں سے بھری ہوتی تھی، لیکن اب صرف دکانیں ہی بھری ہیں لیکن خریدار غائب ہیں۔
ایک دکاندار نے بتایا کہ پہلے کراچی، لاہور اور دوسرے شہروں سے لوگ آتے تھے اور خشک میوہ جات کی خریداری کرتے تھے کیونکہ کوئٹہ کے لوگ تو اتنا میوہ استعمال نہیں کرتے لیکن اب باہر سے لوگ نہیں آتے۔
باچا خان چوک میں اب خوف کا سایہ اور ایف سی فورس کا پہرہ رہتا ہے
ایران کی کراکری بھی کوئٹہ سے کم قیمت میں دستیاب تھی، لیکن برتنوں کے دکاندار کے حالات خشک میوہ جات کے دکانداروں سے مختلف نہیں ہیں۔
کوئٹہ جہاں سال کے زیادہ تر حصے میں موسم سرد رہتا ہے وہاں سیاسی گرمی بڑھنے کے بعد دلوں میں رنجش آ گئی اور علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، شہر لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، جو رشتے صدیوں سے بنے تھے وہ انجان ہوگئے۔
شہر میں سرکاری اہلکاروں یا آبادکاروں پر کسی بھی حملے کے بعد ایف سی اور پولیس کی کارروائیوں کا مرکز سریاب روڈ ہوتا ہے، جہاں سے کئی نوجوان لاپتہ بھی ہوئے، یہ کارروائیاں یہاں کے نوجوانوں کو مزید باغی بنا دیتی ہیں۔
کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ عام لوگوں اور مزدوروں کو سڑکوں پر تلاشی کے بہانے گھنٹوں روکا جاتا اور تنگ کیا جاتا ہے جبکہ وارداتیں کرنے والے نکل جاتے ہیں۔
بلوچ آبادی والے علاقے پسماندگی میں سب سے آگے ہیں، یہاں بلوچستان لبریشن آرمی کی وال چاکنگ واضح طور پر نظر آتی ہے، اس قدر کے وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب بل بورڈز پر بھی آزاد بلوچستان تحریر ہے۔ سریاب روڈ کے علاقے میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے تعلیم اور صحت کے منصوبے بنائے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔
"یہ تنازعے والا خطہ ہے یہاں ریاست اور دوسرے عناصر میں تکرار ہے، جس کی وجہ سے ریاستی ادارے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں یہ ہی رویہ عسکریت پسندوں اور مذہبی جماعتوں کا بھی ہے"
صحافی سلیم شاہد
بلوچستان کی امن و امان کی ابتر صورتحال فرقہ ورانہ تنظیموں کے پھلنے پھولنے کا سبب بنیں۔ جس کے نتیجے میں کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم پر حملوں کا بظاہر نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
ہزارہ نوجوان جو ہر کھیل میں دلچسپی رکھتے تھے اب ان کی قابلیت محدود کر دی گئی ہے۔ مری آباد میں ایک عمارت کے اندر کچھ نوجوان سنوکر کھیلتے ہوئے نظر آئے، ایک نوجوان سے جو پوچھا کہ اب وہ باہر کیوں نہیں کھیلتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ’حالات کی وجہ سے وہ کہیں نہیں جا سکتے، ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے ہو رہے ہیں، نوجوان کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد اپنا وقت یہاں گذارتے ہیں‘۔
کوئٹہ میں کسی بھی سیاسی اور سماجی مسئلے پر بات کرنے سے اکثر لوگ ڈرتے ہیں، یہ ڈر انہیں ایف سی، انٹلیجنس اداروں، فرقہ وارانہ تنظیموں یا علیحدگی پسند تنظیموں سے ہوتا ہے۔
معاشرے میں آنے والی تبدیلی سے میڈیا بھی خود کو کہاں محفوظ رکھ سکا، حقائق بتانے کی پاداش میں پچھلے پانچ سالوں میں بیس سے زائد صحافی ہلاک ہوئے۔
سینیئر صحافی سلیم شاہد کہتے ہیں کہ صحافیوں پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر دونوں کا دباؤ ہے۔’یہ تنازعے والا خطہ ہے یہاں ریاست اور دوسرے عناصر میں تکرار ہے، جس کی وجہ سے ریاستی ادارے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں یہ ہی رویہ عسکریت پسندوں اور مذہبی جماعتوں کا بھی ہے‘۔
بلوچ ہو، پنجابی یا ہزارہ سب کی ایک بات مشترکہ ہے وہ یہ کہ سب دکھی ہیں، کوئٹہ میں بھی ان دنوں انتخابات کی تیاریوں کا زور و شور ہے، کس کا کیا منشور ہے اس سے لوگوں کو دلچسپی کہاں، ان کا یک نکاتی مطالبہ ہے کہ کوئٹہ کا امن واپس
کرو۔
No comments:
Post a Comment