Monday 4 November 2013
فائل تصویر رائٹرز
عسکریت پسندی نے پاگل پن کی ہر صورت میں، ملک کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، جس میں لوگوں کے مختلف طبقات پر ردِ عمل، اپنی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے لیے شیعہ ہزارہ واضح ہدف ہیں لیکن جو کوئی ان کی واضح شناخت پر سوچتاہے، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر یہی زور دے گا کہ ہزارہ برادری کو اضافی طور پر تحفظ فراہم کیا جائے لیکن یہ بار بار غلط ثابت ہوا ہے۔
رواں سال بلوچستان میں ہزارہ برادری پر حملوں کے سلسلے میں ڈھائی سو سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ان حملوں کو صرف بعض گروہوں سے جوڑا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ عسکریت پسند خود فخریہ طور پر ذمہ داری لینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہزارہ برادری پر تازہ ترین حملہ جمعہ کو بلوچستان کے ضلع مچھ میں ہوا، جس میں چھ ہزارہ کان کُن اپنی جانوں سے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی۔ اطلاعات کے مطابق تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اُن کے خلاف ہونے والے سیکیورٹی آپریشن کا ردِ عمل ہے۔
جو بلوچستان کی صورتِ حال کو زیادہ نہیں جانتے،اس سے وہ یہ تاثر قائم کرسکتے ہیں کہ واقعی حکومت صوبے میں عسکریت پسندی کا صفایا کررہی ہے لیکن جو صوبے میں کچھ عرصے سے جاری تشدد پر نظریں رکھے بیٹھے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صوبائی حکومت اور بلوچستان میں کام کرنے والی سیکیورٹی ایجنسیز کی کارروائیوں میں ٹھوس اقدامات کا فقدان ہے۔
یہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر ٹھوس اقدامات اٹھانے میں ناکام ہوچکے، ریاست اور حکومت کی اس ناکامی کی بھاری قیمت ہزارہ برادری اپنی جانیں دے کر چکا رہی ہے۔
جمعے کو ہونے والے ظالمانہ حملے کے بعد، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ایک بار پھر معمول کے اپنے بیان کے ساتھ سامنے آئے، جس میں انہوں نے واقعے کی مذمت کی اور ‘انتظامیہ’ کو ہدایت دی کہ قاتلوں کی گرفتای کے لیے ہرممکن اقدامات کرے۔
وزیرِ اعلیٰ نے محرم، جس کا اگلے ایک دو روزمیں آغاز ہونے والا ہے، کے دوران ہزارہ برادری کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہترین صلاحیتیں پیش کرنے کا یہ سب سے بہترین وقت ہے۔
لیکن صرف فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کا وعدہ ہی کافی نہیں۔ لوگوں کی جانوں کے تحفظ کے واسطے، محرم اور اس کے بعد بھی، غیرمعمولی سیکیورٹی نظر آنی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment