Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Tuesday, October 4, 2011

بلوچستان: پُرتشدد واقعات میں اضافہ

عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

گزشتہ گیارہ سالوں میں اب تک چھ سو افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے

صوبہ بلوچستان میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق گزشتہ گیارہ سالوں میں اب تک چھ سو افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

گزشتہ پندرہ دنوں میں یہ چوتھا ایسا واقعہ ہے جس میں حملہ آوروں نے نئی حکمت عملی کے تحت اجتماعی ہلاکتیں کی ہیں اور ان چار واقعات میں اڑتالیس افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

بلوچسان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سنہ انیس سو ننانوے سے شروع ہوئے، اس سے پہلے صوبہ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات کبھی پیش نہیں آئے تھے۔

ان واقعات میں مزید شدت سنہ دو ہزار تین میں اس وقت آئی جب یکے بعد دیگرے اجتماعی ہلاکتوں کے واقعات ہوئے۔ اپریل سنہ دو ہزار تین میں ہزارہ قبیلے کے سات افراد کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ ایک پک اپ میں پود گلی چوک جا رہے تھے۔

فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی ملوث ہے جو ان میں سے بیشتر حملہ کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے
بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس شعیب سڈل
اس کے بعد آٹھ جون سنہ دو ہزار تین کو سریاب روڈ پر ہزارہ قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والے چودہ جوان پولیس کیڈٹس کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا۔

اُسی سال چار جولائی کو پرنس روڈ پر امام بارگاہ اثناء عشریہ پر نامعلوم افراد نے اس وقت خودکش حملہ کر دیا جب لوگ جمعہ کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اس واقعے میں پچپن افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔

اتنے بڑے سانحوں کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اگلے سال مارچ سنہ دو ہزار چار میں عاشورہ کے جلوس پر لیاقت بازار میں نامعلوم افراد نے خودکش حملہ کردیا تھا۔

ان واقعات پر حکام کے مطابق تحقیقات کی گئیں، انکوائریوں کے حکم بھی دیے گئے، جوڈیشل انکوائری بھی کرائی گئی جس کا لبِ لباب ذرائع ابلاغ کو یہی بتایا گیا کہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے گا
اس حملے کی منصوبہ بندی دیگر حملوں سے اس لیے مختلف تھی کیونکہ اس کے لیے جلوس کے راستے میں ایک عمارت کرائے پر حاصل کی گئی تھی اور پہلے شدید فائرنگ کی گئی، پھر دستی بم پھینکنے کے بعد حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس حملے میں ساٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ان واقعات پر حکام کے مطابق تحقیقات کی گئیں، انکوائریوں کے حکم بھی دیے گئے، جوڈیشل انکوائری بھی کرائی گئی جس کا لبِ لباب ذرائع ابلاغ کو یہی بتایا گیا کہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے گا۔

اس واقعہ کے بعد شہر میں توڑ پھوڑ کی گئی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں متعدد دکانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا جس سے مزید ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔

ہزارہ قبیلے کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان سے ہے اور ان کی زبان ہزارگی فارسی سے ملتی جلتی ہے۔ کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہزارہ قبیلے کے کوئی پانچ لاکھ افراد آباد ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لوگ تعلیم، تجارت، کھیل اور زندگی کے دیگر میدانوں میں کافی متحرک ہیں
بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس شعیب سڈل نے کوئٹہ میں اخباری کانفرنسز میں بتایا تھا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی ملوث ہے جو ان میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

انھوں نے ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ عثمان سیف اللہ ، داؤد بادینی اور چند دیگر افراد کے نام بتائے اور کہا تھا کہ ان حملہ آوروں کا مضبوط گڑھ بلوچستان کا شہر مستونگ ہے۔

اس کے بعد عثمان سیف اللہ کو کراچی سے گرفتار کر لیا گیا اور کوئٹہ چھاؤنی جیسے محفوظ علاقے میں قائم انسدادِ دہشت گردی کی جیل میں رکھا گیا تھا۔

عثمان سیف اللہ اس جیل سے سنہ دو ہزار آٹھ میں عاشورہ کے جلوس سے تین روز پہلے فرار ہو گیا تھا۔ عثمان سیف اللہ کے فرار کے بارے میں جیل حکام کو صبح اس وقت پتہ چلا جب قیدیوں کی حاضری لی جا رہی تھی جب کہ داؤد بادینی کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ گرفتار ہے اور مچھ جیل میں ہے۔

ہزارہ قبیلے کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان سے ہے اور ان کی زبان ہزارگی فارسی سے ملتی جلتی ہے۔ کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہزارہ قبیلے کے کوئی پانچ لاکھ افراد آباد ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لوگ تعلیم، تجارت، کھیل اور زندگی کے دیگر میدانوں میں کافی متحرک ہیں۔

حالیہ واقعات سے بلوچستان میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اس صوبے میں ایک طرف بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے تشدد کے واقعات جاری ہیں تو دوسری جانب مذہبی انتہا پسندی کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے جیسے بلوچستان دیگر صوبوں سے الگ تھلگ ہے اسی طرح حکومتوں کی توجہ بھی اس صوبے کی جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔

سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے بلوچستان کی عوام سے ماضی کی زیادتیوں کی معافی مانگ کر صوبے میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔

اس کے بعد موجودہ صدر آصف علی زرداری نے بھی بلوچستان کی عوام سے معافی مانگی لیکن صوبے کے حالات بہتر کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

موجودہ حکومت نے بلوچستان پیکج کا اعلان ضرور کیا جسے بیش تر قوم پرست رہنماوں نے مسترد کر چکے ہیں۔

BBC URDU

No comments:

Post a Comment