آخری وقت اشاعت: پير 1 جولائ 2013 , 07:56 GMT 12:56 PST
ہلاک ہونے والوں کی تدفین آج کی جائے گی
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اتوار کو ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس ہو گئی اور پچاس افراد زخمی ہیں۔
کوئٹہ کے ڈی آئی جی آپریشن کے مطابق دھماکے کی تحقیقات کے لیے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کر دی گئی۔
اطلاعات کے مطابق زخمی ہونے والے پچاس افراد میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ میں شیعہ برادری کی تنظیم تحفظ اعزادری کی اپیل پر شڑ ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔کوئٹہ سے نامہ نگار محمد کاظم نے بتایا کہ شہر میں ہڑتال کا زیادہ اثر شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہے۔ شیعہ تنظیموں نے تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
اتوار کو کوئٹہ مغربی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں رات آٹھ بجے ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
کوئٹہ پولیس کے اعلیٰ افسر ڈی آئی جی فیاض سنبل نے بتایا ہے کہ ہزارہ ٹاؤن کے علاقے میں ہونے والا دھماکہ خود کش حملے کا نتیجہ تھا۔
ہزارہ ٹاؤن میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی ہے اور انھیں اسے پہلے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ رواں سال فروری میں فروٹ مارکیٹ میں ہونے والے ایک زوردار دھماکے میں کم از کم سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ شیعہ ہزارہ برادری شدت پسند حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔
جنوری میں شیعہ ہزارہ نے شدت پسندی کے واقعے میں ہلاکتوں کے بعد اپنے پیاروں کی میتوں کو دفنانے سے انکار کر دیا تھا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر کے کوئٹہ شہر میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا۔ تقریباً دو دن تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے کے بعد صوبے میں دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے کوئٹہ میں شدت پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کوئٹہ میں گزشتہ ماہ دو دھماکوں اور فائرنگ کے واقعے میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر اور چودہ طالبات سمیت 25 افراد ہلاک جبکہ اسسٹنٹ کمشنر اور ایف سی کے کپتان سمیت پچیس سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے پہلے اتوار کو ہی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مضافات میں نیم فوجی دستے کے ایک قافلے کے قریب ریموٹ کنٹرول دھماکے سے دو بچوں سمیت سترہ افراد ہلاک اورتین ایف سی کے اہلکاروں سمیت سینتالیس افراد زخمی ہو گئے تھے۔
یہ واقعہ بعد دوپہر اینڈس ہائی وے پر بڈھ بیر تھانے کے قریب پیش آیا۔گزشتہ سال دسمبر میں وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پشاور کے مضافات میں بڈھ بیر اور متنی میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ حکومت کی جانب سے ان حملوں کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آ رہے۔
No comments:
Post a Comment