Azaranica is a non-biased news aggregator on Hazaras. The main aim is to promote understanding and respect for cultural identities by highlighting the realities they face on daily basis...Hazaras have been the victim of active persecution and discrimination and one of the reasons among many has been the lack of information, awareness, and disinformation.

Saturday, June 30, 2012

’جب مرنا تو ہے پھر قسمت کیوں نہ آزمائیں


عزیز اللہ خان
آخری وقت اشاعت:  ہفتہ 30 جون 2012 ,‭ 14:30 GMT 19:30 PST

ڈوبنے والی کشتی میں دو سو سے زیادہ افراد سوار تھے
’مرنا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ، تو چلو آسٹریلیا جا کر اپنی قسمت آزما کر دیکھتے ہیں ، ہو سکتا ہے کامیابی حاصل ہو تو میں اپنے والدین اور گھر والوں کے لیے کچھ کر سکوں گا‘۔
یہ تھے نوجوان عمران علی کے الفاظ جو بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم تھے، لیکن کوئٹہ میں حالات سے تنگ آ کر انھوں نے آسٹریلیا جانے کے لیے ایک خطرناک راستے کا انتخاب کیا۔ 
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عمران علی ہزارہ قبیلے کے ان ترپّن افراد میں شامل تھے جن کی کشتی انڈونیشیا سے آسٹریلیا جاتے ہوئے بحر ہند میں کرسمس آئی لینڈ کے پاس ڈوب گئی تھی۔
اس کشتی میں ویسے تو دو سو سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں ترپن ہزارہ قبیلے کے اور باقی کا تعلق قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے تھا۔ عمران علی ان بیس خوش قسمت افراد میں شامل ہیں جنھیں کشتی ڈوب جانے کے بعد زندہ بچا لیا گیا ہے اور وہ اس وقت آسٹریلیا میں حراستی مرکز میں ہیں۔
عمران علی کے بہنوئی شجاعت علی نے ٹیلیفون پر کوئٹہ سے بی بی سی کو بتایا کہ ہزارہ قبیلے کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا سامنا ہے اور حالات دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہزارہ قبیلے کے لوگوں کو جان بوجھ کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئے روز ہزارہ قبیلے کے لوگوں کے قتل عام کی وجہ سے عمران علی نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ آسٹریلیا جا کر پناہ کے لیے درخواست دے گا اور وہاں سکونت اختیار کر لے گا۔
شجاعت علی کے مطابق عمران علی کو والدین نے بہت سمجھایا کہ یہ راستہ انتہائی خطرناک ہے جس پر عمران نے یہی کہا کہ مرنا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ، اس لیے آسٹریلیا جانے کی کوشش وہ ضرور کرے گا اگر کامیابی ہوئی تووہ اپنے گھر والوں اور والدین کے لیے کچھ کر سکے گا۔
"عمران علی کو والدین نے بہت سمجھایا کہ یہ راستہ انتہائی خطرناک ہے جس پر عمران نے یہی کہا کہ مرنا یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ، اس لیے آسٹریلیا جانے کی کوشش وہ ضرور کرے گا اگر کامیابی ہوئی تووہ اپنے گھر والوں اور والدین کے لیے کچھ کر سکے گا۔"
شجاعت علی
شجاعت علی نے بتایا کہ عمران کا ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں اور وہ تعلیم میں پوزیشن ہولڈر رہا ہے۔ ان کا بھائی ایئر فورس میں ہے اور مالی اعتبار سے ان کا خاندان کافی بہتر ہے۔
ان کے مطابق عمران علی نے اپنے سفر کا آغاز اپنے دوستوں کے ساتھ اس سال مارچ میں شروع کیا اور پہلے قانونی طریقے سے تھائی لینڈ گئے جہاں سے وہ ملائیشیا اور پھر انڈونیشیا پہنچے۔
اس کے بعد انھوں نے کشتی سے غیرقانونی سفر انیس جون کو شروع کیا جبکہ انھیں حادثہ اکیس جون کو پیش آیا تھا۔
شجاعت علی نے بتایا کہ عمران کے مطابق رات کے اندھیرے میں کشتی کا سفر شروع کیا اور انھیں اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ کشتی میں کل کتنے افراد سوار ہیں کیونکہ وہاں لوگ پیسے کی خاطر انسانی جانوں کا خیال نہیں رکھتے۔
انھوں نے کہا کہ کشتی ڈوب جانے کے بعد عمران نے بارہ سے چودہ گھنٹے سمندر میں گزارے جس کے بعد آسٹریلوی حکام موقع پر پہنچے اور انھیں وہاں سے نکالا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے علاقے کے بیس سے پچیس افراد اب تک لاپتہ ہیں جبکہ کرم ایجنسی کے ستر سے زیادہ افراد کا اب تک کچھ علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں

No comments:

Post a Comment