آخری وقت اشاعت: اتوار 2 ستمبر2012 , 01:45 GMT 06:45 PST
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں سات افراد ہلاک ہونے پر آج کوئٹہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔
اس ہڑتال کا اعلان سنیچر کے روز ہزارہ قبیلے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سات افراد کی ہلاکت کے بعد کیا گیا۔
شٹر ڈاؤن ہرتال کا اعلان ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی اور عزاداری کونسل پاکستان نے ہزار گنجی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کیا۔
ہلاکتوں کا پہلا واقعہ کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے ہزارگنجی میں سنیچر کی صبح اس وقت پیش آیا جب نامعلوم افراد نے سبزی منڈی کے قریب ایک بس سے تمام مسافروں کو اتار کر، شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان میں سے پانچ افراد کو فائرنگ کر کے کر ہلاک کر دیا۔
فائرنگ کے بعد ملزمان موقع سے موٹرسائیکلوں پر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم پولیس کے مطابق فرار ہونے والے ملزمان نے ہزار گنجی میں ہی فائرنگ کے ایک اور واقعے میں مزید دو افراد کو ہلاک کیا ہے۔
دونوں واقعات کے بعد پولیس اور فرنٹیئرکور کے اہلکاروں نے ہلاک شدگان کی لاشیں بولان میڈیکل کمپلیکس پہنچا دیں۔ جہاں ان کی شناخت ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے اہلِ تشیع افراد کے طور پر کی گئی۔
اس واقعے پر ہزارہ قبیلے کے افراد نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس اور بروری روڈ کو کئی گھنٹوں تک احتجاجاً بند کیا جبکہ کئی مقامات سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں جس کے باعث شہر میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے۔
تاہم مزید کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچاؤ کے لیے پولیس اور فرنٹیئر کور کی بھاری نفری بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال پہنچ گئی۔
"وہاں (کوئٹہ) میں ریاستی مشینری بالکل ناکام ہوچکی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہاں پر، انتظامیہ کچھ نہیں کر رہی ہے، یہاں تک کہ جو فورسز ہیں وہ بھی کچھ نہیں کر رہیں۔۔۔ یہ سب کچھ انہی کے سامنے ہو رہا ہے اور روز ہو رہا ہے۔"
رکن قومی اسمبلی سید ناصر علی شاہ
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اپنے رشتہ داروں کی لاشیں نہیں اٹھائیں گے جب تک کوئی اعلی حکومتی عہدیدار ہپستال آ کرانہیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے یقین دہانی نہیں کراتا۔
انہوں نے حکومت سے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے کوئٹہ سے رکن قومی اسمبلی سید ناصر علی شاہ نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہاں (کوئٹہ) میں ریاستی مشینری بالکل ناکام ہوچکی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہاں پر، انتظامیہ کچھ نہیں کر رہی ہے، یہاں تک کہ جو فورسز ہیں وہ بھی کچھ نہیں کر رہیں۔۔۔ یہ سب کچھ انہی کے سامنے ہو رہا ہے اور روز ہو رہا ہے‘۔
اس سوال پر کہ وفاق اور صوبے میں ان کی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہو سکا، ناصر علی شاہ نے کہا کہ ’میں تو ساڑھے چار سال سے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر بلوچستان اور کوئٹہ کے مسئلے پر چیختا رہا ہوں مگر کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ حکومت اپنے منشور سے ہٹ گئی ہے اور یہ صرف اپنی حکومت کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت پورے پاکستان کی عوام سے غافل ہے اور ہزارہ برادری نے سینتیس سال پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے ہیں مگر کسی نے ہمارے ساتھ ان واقعات کے بارے میں افسوس تک نہیں کیا۔
خیال رہے کہ جمعرات کے روز کوئٹہ کے جی او آر کالونی میں نامعلوم مسلع افراد نے ایڈیشنل سیشن جج ذوالفقار نقوی کو ان کے ڈرائیور اور محافظ سمیت ہلاک کیا تھا۔ ذوالفقار نقوی کی ہلاکت کےخلاف سنیچر کو دوسرے روز بھی کوئٹہ اور صوبے کے دیگرشہروں میں وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کوئٹہ میں تیرہ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا ہے جن میں سے گیارہ کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔
No comments:
Post a Comment